منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے زیر اہتمام ہاؤس آف کامنز میں غربت، انتہا پسندی اور مذہب کے موضوع پر خصوصی تقریب 12 جنوری 2010ء کو منعقد ہوئی۔ برطانیہ میں کمیونٹیز کے وزیر شاہد ملک اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ دورہ برطانیہ میں آئے منہاج القرآن انٹرنیشنل کی فیڈرل کونسل کے صدر حسین محی الدین قادری بھی اس تقریب میں خصوصی طور پر مدعو تھے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، لندن میٹرو پولیٹن یونیورسٹی میں مذہبی شعبہ کے ڈائریکٹر پروفیسر جیفری اسیسز، ہیومیٹرین فورم کی چیئرمین ڈاکٹر ہنی البنا اور واٹر ہاؤس کنسلٹنگ گروپ کے ڈائریکٹر وقار اعظمی نے بھی تقریب میں خصوصی طور پر شرکت کی۔
برطانیہ میں کمیونٹیز کے وزیر شاہد ملک نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے اسلام کے ساتھ دہشت گردی کو نتھی کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کے لیے اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ ساتھ اسلام کے لبادے میں لپٹے بعض نام نہاد مسلمان بھی نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ شاہد ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج جو جنگ لڑ رہی ہے وہ محض پاکستان کی نہیں بلکہ بین الاقوامی امن کی جنگ ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو برطانیہ کی جانب سے ہر قسم کا تعاون مہیا کیا جاتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ مغربی میڈیا کو بھی اپنی سمت درست کر کے عام لوگوں کو گمراہ کرنے کا سلسلہ بند کرنا چاہیے اور ہر منفی خبر کو محض ’’مسلم ‘‘ کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہیے۔ برطانیہ میں نہایت چھوٹی سے اقلیت کو اکثریتی پرامن مسلمان کمیونٹی کا راہنما بنا کر پیش کرنے کی بجائے مثبت کردار ادا کرنے والے اہل علم کو میڈیا میں کوریج دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت نے پاکستان کی امداد کر دوگنا کر دیا تھا اور اس کا مقصد پاکستان کی عوام میں تعلیم کی فراوانی اور بیروزگاری کا خاتمہ ہے۔
منہاج القرآن انٹرنیشنل کی فیڈرل کونسل کے صدر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ پاکستان سے انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے دیانتداری، انصاف اور تعلیمی نظام کی تبدیلی کو فوری طور پر نافذ ہو گا۔ جو مخصوص مکتبہ فکر کے لوگ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کو حکومتی سطح پر اور بعض اہم اسلامی ممالک کی جانب سے مالی امداد دی جاتی ہے جو اپنے مدرسوں میں طلبہ کو مفت تعلیم، رہائش اور کھانا مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری جانب غربت سے تنگ اور ستائی عوام اپنے بچوں کو ایک لمبے عرصہ کے لئے ایسے نام نہاد مدرسوں میں داخل کروا دیتے ہیں، جہاں انہیں مذہبی تعلیم کے نام پر دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ بعد ازاں ان مدرسوں کے فارغ التحصیل طلبہ جدید دنیاوی تعلیم سے ناواقف ہوتے ہیں۔ یہی طلبہ خود استاد بن کر اندرون بیرون ممالک پھیل جاتے ہیں اور اپنی کم علمی کے باعث اسلام کی تعلیمات کم اور اپنے مالی سپانسرز کی تعلیمات کو زیادہ عام کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے حکومت فوری طور پر یکساں نظام تعلیم کو نافذ کرے۔ ایسے نام نہاد مدرسوں کو بند کر کے دینی ودنیاوی علوم پر مبنی تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ مخصوص مکتب فکر کے پیروکاروں کی حوصلہ شکنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین، کشمیر اور افغانستان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ اور عالمی برداری فوری توجہ دی دے اور ان ممالک سے متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بھی عمل کروایا جائے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ترقی پذیر اسلامی ممالک میں تعلیم کی فراوانی کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ تعلیم یافتہ نوجوان بیروزگاری سے تنگ آکر ان قوتوں کے نرغے میں نہ ائیں جو جہاد کے نام پر دنیا میں فساد پھیلا رہے ہیں۔
لندن میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں مذہبی شعبہ کے ڈائریکٹر پروفیسر جیفری اسیسز نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ غربت اور جدید تعلیم کا فقدان ہی انتہا پسندی کا باعث ہے کیونکہ امریکہ اور برطانیہ میں دہشت گردی میں ملوث نوجوان زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ ان کے مطابق تمام دینی کتب میں تقریباً تمام اسباق میں مماثلت ہے لیکن یہ انفرادی سوچ پر منحصر ہے کہ وہ ان کی کیسی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی سطح پر ہمیں مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لئے بل تفریق تمام طبقات کو قومی سیاسی دھارے میں لانے ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں کو افغانستان پر چڑھائی کی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور اپنی خارجہ پالیسیوں کو موجودہ عالمی تناظر میں تبدیل کیا جائے۔
ہیومیٹرین فورم کی چیئرمین ڈاکٹر ہنی البنا نے اس بات پر زور دیاکہ ہمیں سازشی عناصر کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے جنہوں نے داڑھی، حجاب اور خاص لباس کی اڑ میں دہشت گردی کو ہوا دے رکھی ہے۔ انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ اسلام مکمل نظام زندگی ہے اور اس کے دشمن صرف وہی لوگ ہیں جن سے موجودہ نظام کو نقصان کا اندیشہ ہے۔
واٹر ہاؤس کنسلٹنگ گروپ کے ڈائریکٹر وقار اعظمی نے کہا کہ برطانیہ میں حکومتی عہدیدارمذہبی تنظیمات کو فنڈنگ ذاتی تعلقات کی بجائے میرٹ کی بنیاد پر کریں تو بہتر نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
منہاج القرآن انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے غربت اور انتہا پسندی کے خلاف دینی و دنیاوی علوم کے فروغ کے لئے دنیا کے دیگر ممالک میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کی تنظیمی سرگرمیاں اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی خدمات کے حوالہ سے حاضرین کو بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں منہاج القرآن انٹرنیشنل دنیا بھر میں قیام امن کے لیے عملی کوششیں کر رہا ہے۔ اس نشست کی کمپیئرنگ کے فرائض نوید شیخ اور شاہد مرسلین نے مشترکہ طور پر سرانجام دئیے۔
رپورٹ : ( آفتاب بیگ) لندن
تبصرہ