منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈنمارک کے زیراہتمام کانفرنس بعنوان مذہب اور انتہاء پسندی

منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈنمارک کے زیراہتمام "مذہب اور انتہاء پسندی" کے عنوان سے کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس مورخہ 31 اکتوبر 2009ء کو کوپن ہیگن کی معروف "بلیک ڈائمنڈ" بلڈنگ کی ڈینش لائبریری میں منعقد ہوئی۔ یہ وہ تاریخی عمارت ہے جسے خصوصی طور پر بڑے بڑے مذاکروں، سیمنارز اور اعلیٰ سطح کے حکومتی پروگرامز کے لیے بنایا گیا ہے اور یہاں دنیا بھر کے دانشور، مصنفین اور سکالرز لیکچرز دیتے ہیں۔

کانفرنس میں ڈنمارک کے Prevention Center سیکیورٹی اور انٹیلی جنس سروسز کے ڈائریکٹر Jakob Ilum، کوپن ہیگن کے میئر Jakob Hougaard، سوتھرن یونیورسٹی آف ڈنمارک کے پروفیسر ڈاکٹر Torben Rugberg Rasmussen، کوپن ہیگن یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر Jørgen Baek Simonsen، ڈنمارک کی Ministry of Integration کے ایڈوائزر Dr. Karen Lise Johansen Karman، قاہرہ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر اور صدر سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل حسن محی الدین قادری اور دیگر معزز مہمانوں میں شامل تھے۔ کانفرنس کے معزز مہانوں کو منہاج القرآن انٹرنیشنل کوپن ہیگن کی طرف سے پروقار انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔ کانفرنس میں ڈینش پولیس آفیسرز، پادری، سوشل ورکرز، جرمنی، ایران، پاکستانی سفیروں اور ڈینش یونیورسٹی کے طلبہ سمیت ڈنمارک کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے 5 سو شرکاء نے شرکت کی۔ جنہوں نے اپنی نشستوں کی ایڈوانس بکنگ کروا رکھی تھی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد نعت مبارکہ بھی پڑھی گئی۔ مذہبی انتہاء پسندی کیخلاف کانفرنس کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے کوپن ہیگن کے میئر مسٹر Jakob Hougaard نے کیا۔ انہوں نے کانفرنس کے معزز مہانوں اور شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہیں پروگرام کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ کوپن ہیگن شہر میں دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں جو ڈینش شہری بھی ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ مختلف مذاہب کے ان شہریوں میں بین المذاہب ہم آہنگی موجود ہے۔ آج ہم سب اس ہم آہنگی کو مزید بڑھانے کے لیے جمع ہیں۔

کانفرنس میں منہاج القرآن انٹرنیشنل نے اسلام کا پیغام امن دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ڈینش میئر نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا بھر میں مذہبی ہم آہنگی اور اتحاد و یکسانیت کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا اور ہم دہشت گردی و انتہاء پسندی کی ہر سطح پر مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈنمارک کی مختلف شہروں میں قائم مساجد بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

ڈنمارک کی Ministry of Integration کے ایڈوائزر Dr. Karen Lise Johansen Karman نے کہا کہ دنیا میں اس وقت قیام امن ممکن نہیں ہو سکتا جب تک مختلف مذاہب ملکر مشترکہ جدوجہد کو اپنا ہدف نہ بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر میں مختلف جہات میں انتہاء پسندی موجود ہے۔ اس کو تعلیم کے ساتھ ساتھ شعور کی بیداری کے ساتھ ختم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منہاج القرآن انٹرنیشنل دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ اور دہشت گردی کے فروغ کے ساتھ ساتھ انتہاء پسندی کو ختم کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ ہم ان کی اس مساعی جمیلہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آج ہمیں اپنے اردگر د اور خصوصاً معاشرے میں موجود انتہاء پسندی کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ انتہاء پسندی کو فوری ختم نہ کیا گیا تو اس سے دنیا کے تمام مذاہب کو خطرہ لاحق ہوگا۔

سوتھرن یونیورسٹی آف ڈنمارک کے پروفیسر ڈاکٹر Torben Rugberg Rasmussen نے کہا کہ ایک طرف دنیا چاند تک پہنچ گئی ہے لیکن دوسری جانب دنیا کو آج بھی مختلف سطحوں پر انتہاء پسندی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج انتہاء پسند ہر مذہب میں موجود ہیں جو الگ الگ افراد کو اپنا ہدف بنا کر اسے پھیلانا چاہتے ہیں، اگر ان کا بر وقت قلع قمع نہ کیا گیا تو اس سے دنیا کو نقصان ہوگا۔

کوپن ہیگن یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر Jørgen Baek Simonsen نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے انتہاء پسندی نے اسی دن ہی جنم لے لیا تھا جب سے انسانی تخلیق ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ انتہاء پسندی آج دنیا کے مختلف معاشروں میں رسوم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انتہاء پسندی کیخلاف مثبت رویوں کو فروغ دینا ہوگا جس سے انتہاء پسندی کو مختلف شعبوں میں ختم کرنے میں مدد مل سکے۔

کانفرنس کے پہلے سیشن کے بعد وقفہ کیا گیا۔ جس میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کوپن ہیگن کی طرف سے ایک ویڈیو ڈاکومنٹری پیش کی گئی، اس کا موضوع "Is this religion?" تھا۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے نام پر انتہاء پسندی و دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ صرف مذہب کے نام پر دہشت گردی کو نتھی کیا جا رہا ہے۔ ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں مذہب کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں دنیا کے کسی بھی مذہب میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی گنجائش نہیں ہے۔

کانفرنس کے دوسرے سیشن میں Dr. Karen Lise Johansen Karman نے ڈنمارک ایمبیسی کی طرف سے انتہاء پسندی کیخلاف کارروائیوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈینش حکومت انتہاء پسندی کے عملی خاتمے پر یقین رکھتی ہے اور اس کے لیے تعلیم کو عام کر کے شعوری تبدیلی پیدا کی جا رہی ہیں۔

کانفرنس کے دوسرے سیشن کاخصوصی خطاب قاہرہ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی سکالر حسن محی الدین قادری کا تھا۔ انہوں نے "انتہاء پسندی کا کوئی مذہب نہیں" کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انتہاء پسند بے دین اور بے مذہب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں کسی قسم کی انتہاء پسندی کی گنجائش نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے رہنما اور آئیڈیل ہیں جنہوں نے دنیا کو امن کا گہوارا بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے خلاف تھے۔ حسن محی الدین قادری نے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب نہ تو دہشت گردی یا انتہاء پسندی کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اسے فروغ دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتہاء پسندی تو دور کی بات ہے اسلام غیر مسلموں کو تحفظ دیتا ہے، حتی کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنی مساجد میں عبادت کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ یہ سب پیغمبر اسلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات امن ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقلتیوں کے حقوق کے سب سے بڑے محافظ تھے، اس کے لیے انہوں نے کائنات کا پہلا امن میثاق مدینہ کیا۔ اس معاہدے کی رو سے مسلمانوں نے کئی جائز چیزوں سے بھی اجتناب کیا۔ یہ اسلام میں رواداری اور انتہاء پسندی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ آج بدقسمتی سے مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ انتہاء پسندی اور شدت پسندی کو نتھی کیا جا رہا ہے۔ جس کے تناظر میں اسلام کو دہشت گرد مذہب قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ غیر مسلموں کی شدت پسندی اور انتہاء پسندی ہے کہ امن کے داعی دین کو انتہاء پسندی کے ساتھ جوڑنے کی سازش میں مصروف ہیں۔

کانفرنس کے اختتام پر تمام معزز مہمانوں نے مشترکہ ڈنر میں شرکت کی۔ اس موقع پر تمام معزز مہمانوں نے انتہاء پسندی کیخلاف ایک دوسرے سے مزید تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر حسن محی الدین قادری نے معزز مہمانوں کو قیام امن اور انتہاء پسندی کے خلاف علامتی طور پر پھول پیش کیے۔ ڈنر کے بعد معزز مہمانوں کو انتظامیہ کی طرف سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب کے تحائف بھی  دیے گئے۔ اس تقریب کا باقاعدہ اختتام دعائے امن سے ہوا۔

مرتب رپورٹ: ایم ایس پاکستانی

تبصرہ