ڈبلن آئرلینڈ (وسیم بٹ سے ) تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل آئرلینڈ کے زیراہتمام ڈبلن میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور شیخ حماد مصطفیٰ المدنی القادری نے خصوصی شرکت کی۔
کانفرنس میں سفارتخانہ ڈبلن کے ہیڈ آف چانسری شاہد اقبال، سفارتخانہ ڈبلن کے ہیڈ آف مشن ڈاکٹر کاظم شریف کاظمی، آئرلینڈ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں سے آئرش، پاکستانی اور دیگر کمیونٹیز کے خواتین و حضرات اور بچوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔
کانفرنس کا آغاز حافظ تنویر حسین نے تلاوت کلام مجید سے کیا، جس کے بعد رانا محمد احسن اور محمد شفا نے بارگاہ رسالتمآب ﷺ میں گلہائے عقیدت پیش کیے، جبکہ کانفرنس میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض مبین حسین نے ادا کیے۔ تحریک منہاج القرآن آئرلینڈ کے صدر وسیم بٹ نے تمام معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے انسان اور اخلاق کے موضوع پر نہایت علمی، فکری اور روحانی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ انسان کا جسم جو کہ مادہ پرستی اور عزت و وقار، رتبہ، مال و دولت اور دنیا کی آسائش چاہتا ہے اس کے برعکس روح اللہ کا قرب چاہتی ہے۔ روح مال و دولت مقام و مرتبہ اور آسائش کی نفی کرتے ہوئے اللہ کی رضا اور قرب چاہتی ہے اگر انسان جسم کی خواہشات کو ماننا شروع کر دے تو وہ حیوانیت اور پھر شیطانیت کی طرف چلا جاتا ہے جو کہ مکمل تباہی اور بربادی ہے تو دوسری طرف اگر روح کی طرف توجہ دے اور اس کو پروان چڑھائے تو روحانیت، ملکیت اور ربانیت کی طرف پرواز کرتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ روحانیت نہ ہو تو عبادت بھی عبادت نہیں اور عبادت یہ ہے کہ بندے کا شعور اور لاشعور کی رغبت اللہ کی طرف ہو انسان روحانیت سے ایک قدم ملاکیت جس میں انسان کی صفات فرشتوں کی طرح ان کے وجود کا مقصد حیات صرف مولا کی رضا ہوتی ہے وہ ہر کام میں صبر سے کام لیتا ہے پھر اس سے آگے ربانیت انسان کے اندر اللہ کی صفات جلوہ گر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
آخر میں تحریک منہاج القرآن کی تاحیات ممبر شپ لینے والوں میں شیخ حماد مصطفیٰ المدنی القادری نے اسناد تقسیم کی۔ اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتب کے علاوہ منہاج ویلفیئر کا بھی سٹال لگایا گیا جس پر حاضرین نے خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے کئی کتب کی خریدداری بھی کی لیکن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے انگریزی ترجمہ قرآن The Manifest Quran حاضرین کی توجہ کا مرکز رہا ۔
تبصرہ