تحریر: عین الحق بغدادی
8 فروری کو پاکستان کے تمام اخبارات نے یہ خبر شائع کی کہ بھارت کی ریاست دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری کا فروغ امن نصاب وہاں کے نصاب کے مدارس میں شامل کرے گی۔ دہشت گردی وہ واحد ایشو ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جو پوری دنیا کیلئے بالعموم اور پاکستان کیلئے بالخصوص خطرہ ہے، دہشتگردی اس وقت دنیا کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی جب اس نے عسکری روپ دھارا اور دہشتگردوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے بے گناہ اور معصوم انسانیت کا خون کرنا شروع کر دیا۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی عسکری دہشتگردی کا واقعہ سر زد ہوا وہاں کے جمہوری حکمرانوں نے فوری اپنے اور عوام کے تحفظ کیلئے کارروائی کی اور نہ صرف اپنے ملکوں میں بلکہ ملک سے باہر بھی دہشت گردی کی روک تھام کیلئے کارروائیاں کیں۔ مگر قابل افسوس امر تو یہ تھا کہ ہمارے ملک میں پہلے تو سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کے بارے میں مختلف الاراء تھیں، کوئی انہیں درست اور کوئی غلط مانتا تھا اور غلط ماننے والی جماعتیں بھی ان کے خلاف عسکری آپریشن کے حق میں نہ تھیں اور جب آرمی اور فورسز کے جوان دہشت گردی کے مقابلے میں شہید ہو جاتے تو اسلامی مملکت خداداد میں باقاعدہ ایک بحث شروع ہو گئی کہ کیا وہ لوگ جو دہشتگردی کے خلاف لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں شہید کہلانے کے حق دار بھی ہیں یا نہیں۔
ان حالات میں سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے بڑا واضح موقف اختیار کیا اور سب سے پہلے600صفحات پر مشتمل قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک تاریخی فتویٰ لکھ کر دہشت گردوں کے چہرے سے نقاب اتار کر انہیں اسلام سے خارج کیا، دوسرے مرحلے پر پاک فوج کے جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے مختلف ٹی وی چینلز پر آ کر تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں واضح کیا کہ دہشت گردی کی جنگ میں مارے جانیوالے نہ صرف شہید ہیںبلکہ انکا اجر دوسرے شہدا سے دس گنا زیادہ ہے۔ پھر گوں مگوں کی کیفیت کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ہو یا نہ ہو پاکستان عوامی تحریک کا موقف بالکل واضح اور دو ٹوک تھا کہ دہشتگردوں کو آپریشن کے ذریعے ہی کچلا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ نابغہ عصر ہستی کی نظر ان محرکات پر تھی جو زمانہ دراز سے لوگوں کی ذہنی برآنگخنگی کا سبب بن رہی تھی اور وہ کون سے نظریات ہیں جن کی وجہ سے دہشت گرد اپنے آپ کو اڑا بھی لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی نظراس بات پر تھی کہ جب تک دہشت گردی کے نظریے کو جڑ سے ختم نہیں کیا جاتا یہ دبی چنگاری فرصت پا کر پھر الائو کی شکل اختیا ر کر سکتی ہے۔ لہذا چیئرمین پاکستان عوامی تحریک نے اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف طبقات فکر کیلئے فروغ امن نصاب ترتیب دیا جو متعصب رویے کو ختم کرکے معتدلانہ رویہ اپنانے میں مددگار ہو۔
پوری دنیا میں بالخصوص مغربی دنیا میں اس نصاب کو پذیرائی ملی اور مختلف تقریبات کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کی ان کوششوں کو سراہا بھی گیا کیونکہ وہ ممالک اپنے ملکوں سے دہشتگردی کے خاتمے کی کسی ادنیٰ سی کوشش کو بھی قبول کرتے ہیں اور سراہتے ہیں، مگر یہ مملکت خداداد پاکستان جو دہشت گردی اور دہشتگردوں کا اڈا تصور کیا جاتاہے، جب ڈاکٹر صاحب بڑے فخر سے یہاں آتے ہیں اور اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں فروغ امن نصاب کی تقریب رونمائی شروع ہو ئی، ہم اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے اپنی نظریں ٹی وی پر جمائے بیٹھے تھے کہ ملک میں اتنا اہم کام ہونے جا رہا ہے تو یقینا پورے پروگرام کی لائیو کوریج ہو گی مگر ہم حیران تھے کہ ابھی تک فروغ امن نصاب کی تقریب کی کارروائی آن ائیر نہیں ہو رہی تھی۔ حالت اضطراب میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دہشت گردوں کے سیاسی ونگ نے اس فروغ امن نصاب کی تقریب کو Kill کر نے کیلئے ایک ہی خبر بریک کی جس کا تعلق بھی دہشتگردی سے تھا اور پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے اسپیشل پروگرامز شروع ہو گئے اور تمام اینکرز اس دن اس خبر میں مصروف ہو گئے اور آخر میں کھودا پہاڑ تو نکلا چوہا کی مصداق اس خبر کا انجام یہ ہوا کہ وہ دو سال پرانی خبر تھی جسے آج بریک کیا گیا۔ اس طرح پاکستانی حکمرانوں نے فروغ امن نصاب کی خوب پذیرائی کی۔ مگر آج جب میری نظر اس خبر پر پڑی کہ دوسرے ممالک اس نصاب کو اپنے مدارس کے نصاب میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو میں اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا باقی آپ سمجھدار ہیں۔
دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ڈاکٹر صاحب کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ موجودہ حکمران دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں، اس کی وجہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں حکمرانوں کے دہشت گردوں کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں، بڑی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے جن میں زمینوں پر قبضے، سیاسی قتل اور بھتہ خوری جیسے امور شامل ہیں اور اس کے بدلے میں دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے اس موقف کی تائید یوں ہوتی ہے کہ کچھ عرصہ قبل حکومت نے اعلان کیا کہ دہشت گردی خاتمے کے آخری مراحلے میں ہے مگر 6 فروری کو ہی حکومت کی طرف سے ایک خبر آئی ہے کہ بیرونی فنڈنگ روکنے کا سوچا جارہا ہے، قومی ایکشن پلان بھی دھرے کا دھرا رہ گیا اور صرف ان نکات پر عمل کیا جارہا ہے جن سے حکمرانوں کے سیاسی مقاصد پورے ہورہے ہیں اسی ضمن میں پاکستان عوامی تحریک کو کہنا پڑا کہ یہ قومی ایکشن پلان کے بجائے حکومتی سلیکشن پلان لگتا ہے یعنی صرف وہ ہورہا ہے جو حکومت کے فائدے میں ہے اور بعض اوقات تو کیس ایف آئی اے اور نیب میں اس لیے چلائے جاتے ہیں تاکہ عوام کو بے وقوف بنا کر ملزمان کو کلین چٹ دی جائے اور کیس ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جائے یہ سب کچھ بڑی سیاسی جماعتوں کا مک مکا کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس پر گفتگو کرتے ہوئے اس کرپٹ نظام سے پردے ہٹاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے مفادات ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے ہیں کبھی ایک کی باری ہوتی ہے تو کبھی دوسرے کی، ایک جماعت حکومت میں ہوتی ہے تودوسری اپوزیشن میں اور پھر آپس میں طے ہو جاتا ہے کہ آپ نے کتنا شور ڈالنا ہے اور ہم نے کتنا برداشت کرنا ہے اگر آپ یادوں کے دریچوں میں جھانکیں تو معلوم ہو گا کہ پی پی حکومت میں ن لیگ کے قائدین زرداری کا پیٹ پھاڑ کرلوٹی دولت نکالنے، سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کرتے تھے اور عوام نعرے لگاتی تھی مگر جب ن کی حکومت آئی تو پھر ان کی خاموشی اور پھر دھرنے کے دوارن جب مفادات کو ٹھیس پہنچنے لگی اور حقیقی معنوں میں پیٹ پھٹتے نظر آئے تو سب اکٹھے ہو گئے مگر کچھ دنوں بعد اپنے پرانے معاہدے پر دوبارہ آ گئے کیونکہ سمجھ آ گئی کہ اگر ہماری مک مکا کی سیاست کوکچھ ہوا تو دونوں کا بیڑہ غرق ہو جائیگا لہٰذا پرانا دستور زبان بحال ہو گیا اور اب کی بار تو نیشنل ایکشن پلان اور دہشتگردی کی آڑ بنا کر کچھ بڑی شخصیات کو دھر بھی لیا گیا ہے مگر یہ بھی کسی مک مکا کا نتیجہ ہے اور ان کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو ماڈل ایان کے ساتھ ہوا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ ملک دوست طاقتوں کی آنکھ میں دھول جھونکی جارہی ہو، یہ سب کچھ کسی سیاسی پلان کا ہی حصہ لگتا ہے مک مکا سے یاد آیا کہ اس وقت ایک اہم ایشو پی آئی اے کی نجکاری کا ہے، ڈاکٹر صاحب نے پوری تفصیل کے ساتھ بتا دیا تھا کہ کس طرح ریاستی اداروں کو کمزور اور دیوالیہ کر کے یہ لوگ خود خرید لیتے ہیں، اس کا اندازہ آپ ایسے کر سکتے ہیں کہ ایک طرف ایک نجی ایئرلائن کامیاب جارہی ہے حالانکہ اس کے پاس نہ اس طرح کے جہاز ہیں نہ عملہ نہ وسائل جس طرح کے پی آئی اے کے پاس ہیں مگر پی آئی اے جو دنیا کی بہترین ایئرلائنوں میں شمار ہوتی تھی اور مسافر آرام دہ سفر کیلئے پی آئی اے کا انتخاب کرتے تھے یہ وہ ایئرلائن ہے جس سے ادھار جہاز لے کر امارات ایئر لائن شروع کی گئی جو اس وقت دنیا کی بہترین ایئر لائنوں میں سے ایک ہے، اسی طرح چین نے بھی اپنی ایئرلائن کا آغاز پی آئی اے کے جہازوں سے شروع کیا تھا، آج ہمارے ان عقلمند اور شاطر حکمرانوں نے اس کا ستیاناس کر کے رکھ دیا، ایک ہی شخص ایک نجی ایئرلائن کا مالک ہے وہ ٹھیک چل رہی ہے مگر وہی شخص حکومتی ادارے کا دیوالیہ کیوں کررہا ہے، ان حکمرانوں کے اپنے کاوربار تو آئے دن ترقی ہی کرتے چلے جارہے ہیں کوئی بزنس ایسا نہیں بنا سکتے جو نقصان میں ہو تو پھر عوام کے خون پسینے سے بنائے یہ ادارے انہی تاجروں کے ہاتھوں تباہ کیوں ہورہے ہیں، آج کے حکمران گزشتہ دورحکومت میں پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف مظاہرے کرتے تھے مگر آج پی آئی اے نجکاری کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ملازمین پر گولی چلا دی اور تین افراد کو شہید کر دیا کیا اب یہ اپنی طاقت اور فرعونیت میں اتنے مست ہو چکے ہیں کہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے خون بہانا بھی ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا، ڈاکٹر صاحب نے دھرنے کے دورران بڑے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ لوگوں اگر آج اپنے حق کیلئے باہر نہ نکلے تو پھر ایک وقت آئے گا کہ آپ سے اپنے حق میں مظاہرہ کرنے کا جائز و قانونی حق بھی چھین لیاجائے گا اور اس کے بعد آپ نے دیکھ لیا جو بھی مظاہرے کیلئے نکلتا ہے اس کا کیا حال ہوتا ہے۔ کیا یہ عوام اس مظاہرے کے انتظارمیں ہے جس میں ایسے حکمرانوں سے مطالبہ کیا جائے گا کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھائی جائے۔
فاعتبرو يا اولی الابصار.
پاکستان میں داعش کا سایہ تک نہیں برداشت کرینگے: وزارت خارجہ
بہت کم حکومتیں ہوں گی جو دہشت گردوں کیلئے اور خاص کر داعش کیلئے اتنا واضح موقف رکھتے ہیں مگر ہماری وزارت خارجہ نے تو حد کر دی کہ داعش تو بہت دور کی بات پاکستان میں اس کا سایہ بھی نہیں ہو گا مگر پھر کیا تھا چندروز بعد ہی پتہ چلا اور خبر اخبارات کے پہلے صفحے کی زینت بنی کہ لاہور سے کچھ لوگ داعش میں شمولیت کیلئے شام چلے گئے ہیں پھر حساس اداروں کی کارروائیاں تیز ہوئیں اور خبر آئی کہ داعش کے لوگ پاکستان میں موجود ہیں اور باقاعدہ لوگوں کی تربیت کرتے ہیں اور لوگ بھرتک رتے ہیں۔ 3فروری کو سندھ اور اسلام آباد میں داعش کے امیر عمر کاٹھیور اور عامر منصور کی گرفتاری کی خبر آ گئی، ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے ضرب عضب شروع ہوتے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کرنے جارہے ہیں مگر دوسری طرف کرپٹ، بدمعاش سیاست دان داعش کو import کرکے آپ کیلئے ایک نیا میدان جنگ کھولنا چاہتے ہیں، اس دوران دہشتگرد تمام سیاسی حکمرانوں اوران کے چیلوں کی طرف سے وقتاً وقتاً یہ تردید آتی رہی کہ پاکستان میں داعش کا نام و نشان تک نہیں اور وزارت خارجہ offical statement آگئی کہ سایہ تک برداشت نہیں کرینگے۔ ڈاکٹر صاحب کی Statement کے ایک سال بعد پاکستان سے داعش کے لوگ پکڑے جانے لگے آخر یہ لوگ کہاں تھے یقیناً جنہوں نے انہیں امپورٹ کیا تھا ان کی سرپرستی میں اور زیر سایہ کام کررہے تھے۔
کرپشن میں پچھلے دو تین ماہ میں جو گرما گرم ایشوز اخبارات کے زیر بحث آئے وہ ماڈن ایان کے علاوہ ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کے مقدمات ہیں۔ ایان علی کراچی ایئرپورٹ سے 5کروڑ ڈالر لے جاتی ہوئی پکڑی گئی جس انسپکڑ نے اسے پکڑا تھا اسے تو کیے کی سزا مل گئی اور اپنے ہی گھر میں مردہ پایا گیا ایان علی جب گرفتار ہوئیں تو پھر کیا تھا بدنام ہوں تو کیا نام نہ ہو گا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے جیل کے اندر سرور کی محفلیں سجنے لگیں اور پھر جب کیس عدالت میں گیا تو اب تو بات ہی کچھ اورتھی شہرت کا یہ وقت بھی ہات ھسے جانے نہ دیا اور اعتماد و جرأت کا یہ عالم کہ اس ایک سال میں اس غریب مادل نے اپنے میک اپ اور کپڑوں پر ایک کروڑ 40 لاکھ روپے خرچ کیے اور آخر کسی کو اس پر رحم آہی گیا اور اتنے بڑے سکینڈل کے پیچھے کون تھا یہ کون پتہ کرتا ماڈل کو ہی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے دھرنے کے دوران کرپشن اور منی لانڈرنگ پر گفتگو کی اور خصوصاً منی لانڈرنگ کا طریقہ بتایا کہ کتنی ماڈلز، اینکرز اور سیاسی شخصیات اورکس طرح منی لانڈرنگ کرتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی اس گفتگو کے بعد جب ایان علی منی لانڈرنگ کیس میں پکڑی گئیں تو تین ٹی وی اینکرز نے ڈاکٹر صاحب کی منی لانڈرنگ والی گفتگو اپنے پروگرامز میں عوام کو سنائی اور اعتراف کیا کہ وہ کس طرح من و عن یہی طریقہ بیان کررہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے منی لانڈرنگ کا طریقہ قوم کے سامنے رکھا تو قوم کو پسند آیا بعد میں اینکرز نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ٹھیک کہتے تھے عوام بعد میں کہتی ہے ڈاکٹرصاحب ٹھیک کہتے تھے مگر اس تضاد کو سمجھنے سے میں قاصر رہا کہ ایک آدمی ایک وقت میں ایک ہی ایشو پر بیک وقت درست اور غلط کیسے ہو سکتا ہے اگر ڈاکٹر صاحب پہلے درست کہتے تھے تو پھر آپ لوگوں نے ان کا ساتھ کیوں نہ دیا اور اگر وہ پہلے غلط تھے تو بعد میں ان کی باتیں درست کس طرح ہو جاتی ہیں، میں نے بھی اس ایشو پربڑا سوچا آخر تنگ آ کر میں یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوا کہ یہ مردقلندر خبریں دینے میں بہت ایڈوانس ہیں اور ہماری سوچ بہت پیچھے بھلہ ہم اکٹھے کیسے چل سکتے ہیں۔
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے
تبصرہ