شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 21 ویں شب رمضان 16 جون 2017ء کو شہرِ اعتکاف سے اپنے پہلے خطاب کے آغاز میں اعتکاف کی روح اور اجتماعی عبادات کے اثرات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
’’حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ کے دل میں اللہ تعالیٰ نے القاء فرمایا کہ ’’ماترید‘‘ تو کیا چاہتا ہے؟ عرض کیا:
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اُرِيْدُ اَنْ لَا اُرَيْدُ اِلَّا مَاتُرِيْد.
’’اے اللہ میں یہ چاہتا ہوں جو تو چاہتا ہے اس کے سواء کچھ نہ چاہوں‘‘۔
یہ الفاظ روحِ اعتکاف ہیں جو حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ کی زبان سے ادا ہوئے۔ اعتکاف میں ظاہر و باطن معتکف رہے، گیان اور گمان/ دل و جان بھی معتکف رہے۔ اللہ کی غیر کوئی چیز آپ کے اور اللہ کے درمیان حائل نہ ہو۔ یہ کیفیت 10 دن جاری و طاری رہے۔ اجتماعی اعتکاف کا فائدہ یہ ہے کہ جب کثیر تعداد میں اللہ کے بندے جمع ہوکر اس کا ذکر کرتے ہیں تو وہ بھی عرش پر اپنے ملائکہ میں ان بندوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس لئے کہ اس کا وعدہ ہے:
فَاذْکُرُوْنِيْٓ اَذْکُرْکُمْ.
(البقرة:152)
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا ‘‘۔
جو اللہ کو یاد کرتا ہے اسے یقین ہونا چاہئے کہ اللہ بھی اس کو یاد کرتا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ فرشتے بھی ذاکرین الہٰی کے ہم نشین ہوتے ہیں۔ تنہا ذکرو فکر کی اپنی اہمیت ہے مگر اجتماعی شکل میں ذکرِ الہٰی کی محفل میں بیٹھنے کا الگ رنگ ہے۔ ذاکرین کے ساتھ محض بیٹھنے والے بھی بخشے جاتے ہیں۔ یاد رکھیں! اجتماعیت میں فیض اور قبولیت بڑھ جاتی ہے۔
قرآن میں نماز تنہا پڑھنے والے کو بھی ’’اَعْبُدُ‘‘ کے بجائے ’’نَعْبُدُ‘‘ کہنے کا حکم ہے۔ تحریکِ منہاج القرآن کے زیر اہتمام شہر اعتکاف کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اَعْبُدُ کے بجائے نَعْبُدُ اور اَسْتَعِيْنُ کے بجائے ’’نَسْتَعِيْنُ‘‘ کا نظارہ عطا کرتا ہے۔ ’’میں‘‘ کو ’’ہم‘‘ میں گم کرنا سکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماعیت کا حصہ ہر ایک کو عطا فرمائے‘‘۔
ابتدائی گفتگو کے بعد شیخ الاسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یوم شہادت کی نسبت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انفرادی فضیلتوں اور اخلاق حسنہ پر ان کی تعلیمات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے لئے گئے تو اللہ رب العزت نے اس ملاقات کو اِن الفاظ میں بیان فرمایا:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا.
(الکهف: 65)
’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر e) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا‘‘۔
آیت مبارکہ میں مذکور ’’رحمت‘‘ سے ان کی ولایت کی طرف اشارہ ہے اور ’’علم لدنی‘‘ سے ان کے علم کی طرف اشارہ ہے۔ گویا ولایت اور علم حضرت خضر علیہ السلام کی خصوصیت بنا۔ معلوم ہوا کہ اللہ کا ولی کبھی جاہل نہیں ہوسکتا۔ وہ علم لدنی سے سرفراز ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جاہل کبھی ولی نہیں ہوسکتا۔ ولایت اور علم لازم و ملزوم ہیں۔ عِلمِ صحیح سے ولایت جنم لیتی ہے اور ولایت عِلم صحیح پر قائم ہوتی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمیع صحابہ کو طرح طرح کے فضائل حاصل تھے مگر ایک خصوصیت ایسی تھی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خصوصی طور پر حاصل تھی اور وہ یہ کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ذات میں ولایت اور علم اس قدر جمع کیا گیا کہ صحابہ میں سے کوئی اور اس مقام کو نہ پہنچ سکا۔ آپ رضی اللہ عنہ ولایت کا بھی منبع و چشمہ تھے اور علم کا بھی منبع و چشمہ تھے۔ گویا امت میں آپ رضی اللہ عنہ کو ولایت و علم کا منبع بنادیا گیا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر فرمایا:
الست اولیٰ بالمومنين من انفسهم؟ فقلنا بلی يارسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ، قال من کنت مولاه فعلی مولاه.
’’کیا میں مومنین کی جانوں کا اُن سے زیادہ مالک نہیں ہوں؟ (صحابہ) نے عرض کیا، کیوں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں جس کا مولیٰ ہوں، علی رضی اللہ عنہ بھی اس کے مولیٰ ہیں‘‘۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
اللهم وال من والاه وعاد من عاداه.
’’اے اللہ! تو اس شخص سے محبت کر جو علی رضی اللہ عنہ کو محبوب رکھے اور اس شخص سے عداوت رکھ جو علی رضی اللہ عنہ سے عداوت رکھے‘‘۔
یاد رہے کہ 12 بدری صحابہ سمیت 98 صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو روایت کیا اور سیکڑوں کتبِ حدیث میں اسے ائمہ حدیث نے بیان کیا۔ امام ابن عقدہ رضی اللہ عنہ (تیسری/ چوتھی صدی) نے مذکورہ حدیث ’’من کنت مولاہ۔۔۔‘‘ کے 100 طرق اپنے ایک رسالہ میں جمع کئے۔ ان کے بعد علامہ ذہبی رضی اللہ عنہ (ساتویں صدی) نے اس حدیث کے 25 مزید طرق اپنی کتاب میں جمع کئے۔ اس طرح کل 125 طرق ہوگئے۔ اب اللہ نے ہمیں توفیق دی اور اس کے کرم و توفیق سے میں نے احادیث کے ذخائر کھنگالے اور اس حدیث کے مزید 28 طرق جمع کئے، اس طرح کل طرق 153 ہوگئے۔ ان تمام طرق سے روایات کو میں نے اپنی کتاب ’’الکفایۃ فی حدیث الولایۃ‘‘ میں جمع کردیا ہے۔
اس بات کو بیان کرنے کا مقصد ان لوگوں کے مغالطے کو دور کرنا ہے جو اس حدیث کو صحیح نہیں سمجھتے۔ سن لیں! اس حدیث کے 153 طرق ہیں اور کئی طرق صحیح اور حسن ہیں۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا یہ ایک پہلو ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو منبعِ ولایت بنایا گیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ آپ علمِ لدنی میں بے نظیر و بے مثال تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انا مدينة العلم وعلی بابها.
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس شہرِ علم کا دروازہ ہیں‘‘۔
یعنی جو میرے شہرِ علم میں داخل ہونا چاہے وہ اس دروازے سے آئے۔ گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قطع تعلق کرنے والا علم اور ولایت سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتا۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت اور محبت سے کتراتا ہے وہ کبھی علمِ نبوت کے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ وہ علمِ نبوت سے محروم رہے گا۔
کثیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مختلف الفاظ کے ساتھ مذکورہ حدیث کو روایت کیا ہے۔ اس حدیث کے تمام طرق بھی میں نے اپنی کتاب ’’القول القیم فی باب مدینۃ العلم‘‘ میں جمع کردیئے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ کسی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ میری امت میں اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت کے 10 حصے بنائے، علی کو اس علم و حکمت کے 9حصے دیئے اور ایک حصہ ساری امت میں تقسیم کیا‘‘۔
پس امت میں نہ ولایت میں آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی ہم مرتبہ تھا اور نہ علم میں کوئی آپ رضی اللہ عنہ کا ہم مرتبہ تھا۔
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس وقت سے پناہ مانگا کرتے تھے کہ جب کوئی مشکل شرعی مسئلہ درپیش ہو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود نہ ہوں۔ اس لئے کہ علمی مشکل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغیر حل نہیں ہوتی تھی۔
اس فرمانِ عمر رضی اللہ عنہ کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ ’’مشکل کشا‘‘ ثابت ہوتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے:
لَوْلاَ عَلِیٌّ لَهَلَکَ عُمَر.
’’اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر ہر حرف کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ ہر ہر حرف کے ظاہرو باطن کا علم رکھتے ہیں۔ گویا عِلم قرآن کے ظاہر و باطن کے جامع ہیں۔
- اخلاقِ حسنہ کی تعلیمات کے حوالے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اللہ کے ہاں اچھے لوگ کون ہیں؟ فرمایا: اللہ سے ڈرنے والے، علم اور تقویٰ کو جمع کرنے والے اور دلوں کو دنیا سے بے رغبت رکھنے والے سب سے زیادہ اچھے ہیں۔
- امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اچھے کون ہیں؟ فرمایا: جن میں درج ذیل پانچ خصلتیں ہوں وہ مقرب اور اچھے ہیں:
- اگر نیکی کریں تو ان کے دل میں فرحت ہو۔
- جب کوئی غلطی کریں تو اللہ کے حضور فوری معافی مانگیں۔
- نعمت پر شکر کریں۔
- تکلیف پر صبر کریں۔
- زیادتی کرنے والے کو معاف کردیں۔
- حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اچھائیوں میں بہترین اچھائی اخلاق کا اچھا ہونا ہے۔
لوگو! اگر دوسروں کو معاف کرنے والے، محبت کرنے والے، دل کو وسیع کرنے والے اور اخلاق حسنہ کے مالک بن جائو گے تو یہ بہترین اچھائی ہے۔ اس لئے کہ حسن الخلق راس لکل بر۔ (حسن اخلاق ہر نیکی کا تاج/ کمال ہے)۔ کوئی بھی عبادت اخلاق حسنہ کے بغیر مقبول نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہماری عبادت کی کوئی حاجت نہیں بلکہ وہ ہمارے اخلاق سنوارنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی سے پیش آئیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جس کے اخلاق اچھے ہوگئے اس کی ساری زندگی سنور گئی۔
حدیث مبارک میں ہے کہ جس کے اخلاق اچھے ہوجائیں اگر اس کی عبادت کم بھی ہو تو پھر بھی اس کو قائم اللیل اور صائم النہار کا درجہ عطا کردیا جاتا ہے‘‘۔
تبصرہ