ڈاکٹر ابوالحسن الازہری
قرآن، علم کی اہمیت کو کس جامع انداز میں اور عام فہم طریق میں انسانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایک جاننے والا اور ایک نہ جاننے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ ایک عالم اور ایک جاہل مساوی نہیں ہوسکتے۔ علم بذات خود ایک درجہ ہے۔ علم بذات خود ایک مرتبہ ہے۔ علم بذات خود ایک منصب ہے اور علم بذات خود ایک عہدہ ہے۔ علم بذات خود ایک وقار ہے اور علم بذات خود ایک عظمت ہے۔ علم بذات خود ایک عظیم قدر ہے، علم بذات خود ایک حقیقت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جہالت بھی ایک آفت ہے۔ جہالت بھی ایک مصیبت ہے، جہالت بھی ایک اذیت ہے۔
اس بناء پر علم اور جہالت کبھی یکساں نہیں ہوسکتے، علم اور جہالت دونوں متضاد ہیں، دونوں باہم متناقض ہیں، دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، جس طرح آگ اور پانی برابر نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح علم اور جہالت برابر نہیں ہوسکتے۔ محبت اور نفرت برابر نہیں ہوسکتے، جس طرح دوستی اور دشمنی ایک نہیں ہوسکتیں اور جس طرح طیب اور خبیث برابر نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح علم اور جہالت برابر نہیں ہوسکتے۔ طیب اور خبیث کے حوالے سے قرآن سورہ مائدہ میں بیان کرتا ہے:
قُلْ لاَّ يَسْتَوِی الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ.
(المائدة، 5: 100)
’’فرما دیجیے: پاک اور ناپاک (دونوں) برابر نہیں ہو سکتے‘‘۔
اس طرح جو چیزیں ایک دوسری کی ضد ہوں وہ کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتیں۔ قرآن ہمیں اس آیت کریمہ کے ذریعے یہ حقیقت سمجھا رہا ہے کہ جس طرح جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ اس طرح وہ معاشرہ جو پڑھا لکھا ہے اور وہ معاشرہ جو پڑھا لکھا نہیں ہے وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ اس طرح وہ قوم جو تعلیم یافتہ ہے اور وہ قوم جو جاہل ہے دونوں برابر نہیں ہوسکتیں۔ وہ افراد جو تعلیم یافتہ ہیں وہ جو تعلیم یافتہ نہیں ہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح وہ اقوام جو زیادہ علم رکھنے والی ہیں اور اس کے مقابل وہ اقوام جو علم سے محروم ہیں دونوں برابر نہیں ہوسکتیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اگر قوم کو آگے بڑھانا ہے اور قوم کو ترقی دینا ہے اور قوم کو عظیم بنانا ہے تو اس قوم کو علم میں اتنا آگے بڑھا دو کہ دنیا کی کوئی قوم علم میں اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔
سب سے زیادہ علم، انفرادی سطح پر بھی آپ کے پاس ہو اور اجتماعی سطح پر بھی آپ کے پاس ہو۔ آج قوم کو دنیا کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ قوم بنادیا جائے تو کوئی قوم ان کے برابر نہیں ہوسکتی۔ کوئی قوم ان کے مقابل نہیں ہوسکتی۔ کوئی قوم ان سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ کسی قوم کا ٹیلنٹ ان سے آگے نہیں ہے۔ یہ قوم اپنے علم کی بناء پر عظیم ہوسکتی ہے۔ ایک شخص کی عزت بھی علم سے وابستہ ہے اور ایک قوم کی عظمت بھی علم سے منسلک ہے۔ اس آیہ کریمہ کے ذریعے اجتماعی سطح پر علم کے فروغ کا حکم دیا گیا ہے۔ علم کو عام کرنے کا درس دیا گیا ہے۔ علم کی اشاعت کی ہدایت دی گئی ہے۔ قوم کو علم کے میدان میں یکتا بنانے کا فرمان سنایا گیا ہے۔
قرآن اس کے ساتھ ساتھ انسان کی شخصی حیثیت میں بھی حصول علم کی ترغیب دیتا ہے۔ فرمایا ہم نے انسان کو دو طرح سے علم دیا ہے۔ ایک طریق بیان اور ایک طریق قلم۔ سورہ الرحمن میں ارشاد فرمایا:
علمہ البیان۔ ’’اسی رب نے انسان کو بیان سکھایا‘‘۔
انسان کو باری تعالیٰ نے علم سکھایا اور انسان نے اس علم کو بیان کرنا سیکھا، اس علم کو اظہار میں لانا سیکھا، اس علم کو مختلف جہتوں سے واضح کرنا سیکھا۔ اس علم کی ساری حقیقتوں کو بیان کرنا سیکھا، انسان کے بیان سے علم عیاں ہوا، انسان کے بیاں سے علم ہر ذہن میں درخشاں ہوا، انسان کا حق شناسی کا بیان سب بیانوں پر ایک مہربان ٹھہرا۔ انسان کا یہی علم پر مبنی بیان، اس کی کامیابی کا امتحان ٹھہرا، تعلیم بیان در حقیقت تعلیم زبان ہے تعلیم زباں درحقیقت قول انسان ہے۔ اب شخصی تعلیم کی دوسری جہت کو یوں بیان کیا:
الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ. عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ.
(العلق، 96: 4-5)
’’جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔
انسان کے علم کا ذریعہ قلم ہے جس انسان نے علم کے حصول کے لئے قلم کا استعمال سیکھ لیا اس نے علم سیکھ لیا علم اور قلم لازم و ملزوم ہے۔ قلم کے چلنے سے علم آتا ہے اور علم کی حفاظت قلم سے ہوتی ہے۔ جس کو قلم چلانا نہیں آتا اسے علم جاننا نہیں آتا۔ ایک طالب علم کا سب سے بڑا ہتھیار قلم ہے۔ ایک طالب علم کی شناخت قلم ہے۔ ایک طالب علم کی عزت قلم سے ہے۔ ایک طالب علم کی شخصیت قلم سے ہے۔ ایک طالب علم کے علم کا اظہار قلم سے ہے۔ علم بالقلم کے زندہ مظاہر، کتب خانوں میں ہیں اور لائبریریوں میں ہیں۔ جس نے قلم کا سہارا لیا وہ امتحان میں کامیاب ہوا اور زندگی کے امتحان میں سرخرو ہوا۔ قلم کے نقوش انمٹ ہیں قلم کی یاداشتیں لازوال ہیں قلم کے تحفے انمول ہیں قلم کے شاہکار زمانے کے شہسوار ہیں۔
قلم کے فلسفے زندہ ہیں قلم کی تفسیریں باقی ہیں، قلم کی شرحیں آج بھی جاری ہیں، جو علم قلم کے سپرد ہوا اسے حیات جاوید مل گئی۔ مشاہیر اسلام ہمارے ذہنوں میں قلم کی بدولت ہی زندہ ہیں قلم سے جاری ان کی تحریریں ہم سے باتیں کرتی ہیں۔ ہم آج صدیوں بعد بھی قلم کے سبب ان سے ہمکلام ہوتے ہیں، ہم ان کی رائے سے اتفاق اور اختلاف بیان اور قلم کے ذریعے ہی کرتے ہیں۔ بیان اور قلم نہ صرف طلباء و طالبات کی پہچان ہے بلکہ تعلیمی اداروں کی شناخت ہے۔
علم بالقلم کے مظاہر آج ہم اس کائنات میں ہر طرف دیکھتے ہیں، قلم کی نوک سے نکلا ہوا ایک ایک حرف انسان کو انسان کے احترام پر مجبور کرتا ہے۔ قلم کے استعمال سے ہی ذہنی انقلاب بپا کیا جاتا ہے۔ قلم کے ذریعے ہی ایسا فلسفہ پیش کیا جاتا جو ذہنوں اور دلوں کو مسخر کردیتا ہے۔ علم و حکمت کے آج جتنے بھی ذخائر ہیں وہ سب قلم سے ہی وجود میں آئے ہیں۔ آج انسانی زندگی سے متعلق جتنے بھی فلسفے منصہ شہود پر آئے ہیں وہ قلم کے سبب ہی ہیں۔ آج ساری دنیا کی ترقی قلم کی مرہون منت ہے۔
انبیاء علیہم السلام نے اپنی دعوت کا ذریعہ علم اور قلم کو بنایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو سب سے پہلی تعلیم اقراء باسم ربک اور علم بالقلم کی صورت میں دی ہے۔ قرآن کا نزول ہوا تو علم بالقلم کے ذریعے تحریری صورت میں محفوظ ہوا ، رسول اللہ کی سیرت لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ، قلم کے ذریعے آج ہمارے پاس ایک زندہ سیرت کے طور پر موجود ہے۔ آج قرآن حکیم کے تراجم، قرآن مجید کی تفاسیر، علوم القرآن کی ساری کتابیں، احادیث رسول کی ساری کتابیں اور ان کی شروحات تمام علوم عقلیہ و نقلیہ تمام دینی و دنیوی علوم، تمام فنی اور سائنسی علوم تمام علوم ایجادات و اکتشافات اور سائنس و ٹیکنالوجی سب کے سب علوم علم بالقلم کے مظاہر ہیں۔ آج کا زمانہ قلم کے ذریعے زندہ ہے اور آج کی عصری روایات قلم کے ذریعے مستقبل میں موجود ہیں انسان کا ماضی قلم کی قوت سے درخشاں ہے۔
انسان کا حال قلم کی قوت سے روشن ہے اور انسان کا مستقبل قلم کی قوت سے تابناک ہے جس فرد نے قلم کو استعمال کیا اور جس قوم نے قلم کو استعمال کیا قلم اس فرد کے عمل کو بڑھادے گی اور قلم اس قوم کو ترقی سے ہمکنار کردے گی۔ اس لئے ہر دور میں اور بطور خاص آج کی دنیا میں جتنے بھی کارہائے نمایاں ہیں وہ قلم کے ذریعے ہیں۔ آج جتنی بھی انسانی ترقی ہے وہ قلم کے سبب ہے۔ آج انسانی تہذیب و تمدن میں جتنی رفعت ہے وہ قلم کی بناء پر ہے۔ آج اس پوری کائنات میں انسان کے جتنے بھی تسخیری کارنامے ہیں وہ قلم کی وساطت سے ہیں۔ قلم سے انسانی علم محفوظ بھی ہے اور قلم سے انسانی علم کا اظہار بھی ہے اور قلم کے استعمال سے انسانی عقل کا افتخار بھی ہے، قلم سے انسانی شخصیت کی پہچان بھی ہے اور قلم سے انسانی شخصیت کا بھرم بھی ہے۔
قلم علم کے حصول کا بہترین ذریعہ بھی ہے اور قلم انسانی علم کا بہترین اظہار بھی ہے۔ پس جس فرد نے علم بالقلم کا راز سمجھ لیا اس نے زندگی کی کامیابی کا راز پالیا اورجس قوم نے اپنی شناخت علم بالقلم بنالی وہ اقوام عالم میں عظیم قوم ہوگی۔ قوم کی قلم سے وابستگی میں عزت اور عظمت ہے۔ قلم ہی قوم کی ترقی ہے، قلم سے ہی قوم کی سربلندی ہے، قلم سے ہی قوم کا تشخص ہے، قلم سے ہی قوم کا وجود ہے، قلم سے ہی قوم کا ماضی ہے اور حال ہے اور مستقبل ہے۔
قرآن نے حصول علم کی دوسری صورت کو علّمہ البیان کی صورت میں ذکر کیا ہے کہ اس رب نے انسان کو بیان سکھایا اب سوال یہ ہے کہ بیان خود کیا ہے۔ بیان اظہار علم کا نام ہے۔ بیان ترویج علم کا نام ہے۔ بیان، حقیقت امر کا اظہار ہے، بیان حق کے احقاق کا نام ہے۔ بیان سچ کو واضح کرنے کا نام ہے۔
علمہ البیان کے ذریعے انسان اس کائنات کے سچ کو بیان کرتا ہے۔ وہ امور جو اس کائنات میں حق کی نشانیاں ہیں ان کا تذکرہ کرتا ہے۔ وہ حقائق جو اس کائنات کی اصل ہیں ان کو منکشف کرتا ہے۔ انسان کا بیان کبھی بیان توحید بنتا ہے کبھی بیان رسالت بنتا ہے، کبھی بیان آخرت بنتا ہے، کبھی بیان ملائک بنتا ہے، کبھی بیان ایمان بالانبیاء بنتا ہے، کبھی بیان ایمان بالکتب بنتا ہے، کبھی انسان کا بیان بیان صلوۃ بنتا ہے۔ بیان زکوٰۃ بنتا ہے، بیان حج و صوم بنتا ہے، کبھی انسان کا بیان بیان علم بنتا ہے، کبھی بیان عمل بنتا ہے، کبھی بیان خلق بنتا ہے، کبھی بیان معاملہ بنتا ہے، کبھی بیان حقوق بنتا ہے، کبھی بیان فرائض بنتا ہے، کبھی بیان آداب بنتا ہے، کبھی بیان معاشرت بنتا ہے، کبھی بیان اصلاح بنتا ہے، کبھی انسان کا بیان بیان علوم بنتا ہے۔
کبھی وہ بیان سارے انسانی علوم کو اور سارے عصری علوم کو اپنے لہجے میں سمیٹتا ہے، انسان کا بیان علم ہر ہر علم کو اپنے احاطے میں لاتا ہے۔ ہر علم انسان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے، علوم ظاہری بھی انسان کا بیان بنتے ہیں اور علوم باطنی بھی انسان کا بیان بنتے ہیں۔ علوم عصری بھی انسان کا بیان بنتے ہیں، سائنسی علوم بھی انسان کا بیان بنتے ہیں۔ حتی کہ علوم اولین اور آخرین بھی انسان کے علم کا بیان بنتے ہیں۔
ایسے ہی بعض بیانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وان من البيان لسحر.
’’بلاشبہ بعض بیان جادو ہوتے ہیں‘‘۔
یعنی وہ بیان جو دلوں کو مسخر کرتے ہیں۔ وہ بیان جو ذہنوں کو تبدیل کرتے ہیں، وہ بیان جو سننے والے پر بہت زیادہ اثر کرتے ہیں۔ سننے والا ان بیانوں کو سنتا ہے تو حالت وجد میں آتا ہے۔ عجیب کیف و سرور میں آتا ہے، عجیب ایک دیوانگی کی کیفیت اس پر طاری ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان قرآن یتلوا علیہم ایاتہ کفار و مشرکین کے سامنے ہوتا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان قرآن پر ایک عجیب اثر لیتے تو ان کے دل گواہی دیتے کہ یہ پرتاثیر کلام کسی انسان کا نہیں مگر زبان سے اقرار نہ کرتے۔ پھر عہد رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد علمہ البیان کا فیض جاری رہا، صحابہ کرامؓ کے بیان ہوتے رہے اور اسلام کو فروغ ملتا رہا۔ آج ساری دنیا میں اسلام کا فروغ علمہ البیان کا ہی ہے۔ اسلام سے وابستہ اہل علم نے دو کام کئے علمہ البیان اور علم بالقلم۔ ان دونوں طریق سے اسلام کو خوب پھیلایا اور ساری دنیائے انسانیت کے سامنے اسے ایک زندہ دین کے طور پر پیش کیا۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2017
تبصرہ