حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ محبوبیت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب کی فردیت کے علاوہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان فردیت کے درج ذیل تین گوشے بھی بطور خاص قرآن و حدیث کے مطالعہ سے سامنے آتے ہیں:

  1. اسلوب و اندازِ خطاب میں فردیت
  2. شانِ محبوبیت میں فردیت
  3. بچپن بھی شانِ فردیت کا حامل

اسلوب و اندازِ خطاب میں فردیت

قرآن مجید میں جتنے انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہوا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام کا نام لے کر ان سے براہ راست خطاب فرمایا ہے۔چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

  • قُلْنَا يٰـاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ.

’’اور ہم نے حکم دیا اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو‘‘

(البقرة، 2: 35)

  • يٰــنُوْحُ اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا.

’’اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (کشتی سے) اتر جاؤ‘‘

(هود، 11: 48)

  • يٰـاِبْرٰهِيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ يَا.

’’اے ابراہیم! واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچّا کردکھایا‘‘

(الصافات، 37: 104-105)

  • يٰمُوْسٰی اِنِّیْ اَنَا اﷲُ رَبُّ الْعٰـلَمِيْنَo

’’اے موسیٰ! بے شک میں ہی اللہ ہوں (جو) تمام جہانوں کا پروردگار (ہوں)‘‘

(القصص، 28: 30)

  • يٰـدَاؤدُ اِنَّا جَعَلْنٰـکَ خَلِيْفَةً فِی الْاَرْضِ.

’’اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا‘‘

(ص، 38: 26)

  • يٰزَکَرِيَّآ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِنِ اسْمُهُ يَحْيٰی.

’’(ارشاد ہوا) اے زکریا! بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری سناتے ہیں جس کا نام یحییٰ (علیہ السلام) ہوگا‘‘

(مريم، 19: 7)

  • يٰـيَحْيٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّةٍ

’’اے یحییٰ! (ہماری) کتاب (تورات) کو مضبوطی سے تھامے رکھو‘‘

(مريم، 19: 12)

  • يٰـمَرْيَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ

’’اے مریم! تم اپنے رب کی بڑی عاجزی سے بندگی بجا لاتی رہو‘‘

(آل عمران، 3: 43)

الغرض قرآن مجید میں وہ تمام مقامات جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء کرام کو خطاب کرنا چاہا تو ان کا نام لے کر خطاب فرمایا۔ یعنی بلاواسطہ اسلوب و انداز خطاب اختیار فرماتے ہوئے ’’یا‘‘ کہہ کر مخاطب فرمایا۔ مگر جب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب فرمایا تو اندازِ خطاب تبدیل فرمادیا۔ الحمد سے والناس تک قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ جب بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں لیا۔ وہ خالق و مالک ہے، جس طرح سے جیسے چاہے خطاب فرماسکتا ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر حوالے سے شان فردیت عطا فرمانا تھی، اس لئے انداز خطاب میں بھی فردیت کو قائم رکھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مثیل اور مثل کوئی نہیں۔ آقا علیہ السلام کی شان، عظمت، رسالت، علو، قدر و منزلت، عظمت و تمکنت کا درجہ ہر شے سے افضل، اعلیٰ، ارفع اور منفرد ہے۔ انبیائے کرام میں سے بھی سوائے نفس نبوت کے کسی کو حضور علیہ السلام کے ساتھ برابری نہیں۔ اسی لئے آقا علیہ السلام سے خطاب اور انبیاء علیہم السلام سے خطاب میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرق رکھا۔ آیئے! اس سلسلہ میں قرآن مجید کی چند آیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:

  • لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَo

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔‘‘

(الحجر، 15: 72)

  • مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍo

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں۔‘‘

(القلم، 68: 2)

  • يٰسo وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِيْمِo اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَo

’’یا سین (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o حکمت سے معمور قرآن کی قَسمo بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں‘‘۔

(يس، 36: 1-3)

ان آیات میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و عظمت اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قسم کھائی، مگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں لیا۔ براہِ راست خطاب کیا ہے مگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لینے کے بجائے لقب بیان فرماکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت بیان کر دی۔

  • يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ.

’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے‘‘۔

(المائدة، 5: 67)

  • يٰـاَيُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اﷲُ.

’’اے نبی (معّظم!) آپ کے لیے اللہ کافی ہے‘‘۔

(الانفال، 8: 64)

  • يٰـاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُo قُمِ الَّيْلَ اِلاَّ قَلِيْلاًo

’’اے کملی کی جھرمٹ والے (حبیب!) آپ رات کو (نماز میں) قیام فرمایا کریں مگر تھوڑی دیر (کے لیے)‘‘۔

(المزمل، 73: 1-2)

گویا اللہ تعالیٰ نے اندازِ خطاب میں بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فردیت، نمایاں پن، انفرادیت اور عدم مثلیت کو قائم رکھا۔

اسلوبِ خطاب میں امت کو تعلیم

قرآن مجید میں یہ تذکرہ بھی جابجا ملتا ہے کہ پہلی قومیں اپنے انبیاء کرام کو کس طرح مخاطب کرتی تھیں۔ جب قرآن مجید نے اس چیز کو بیان کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے تصدیق کردی کہ ان اقوام کا اپنے انبیاء کو اس طرح مخاطب کرنا جائز ہے کیونکہ اللہ بھی ان کے بیان کو اسی طرح بیان کر رہا ہے۔

  • امت نوح علیہ السلام اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے:

قَالُوْا يٰـنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَکْثَرْتَ جِدَالَنَا.

’’وہ کہنے لگے: اے نوح! بے شک تم ہم سے جھگڑ چکے سو تم نے ہم سے بہت جھگڑا کر لیا‘‘۔

(هود :32)

  • امت نے ’’یا ھود‘‘ کہہ کر پکارتے ہوئے کہا:

قَالُوْا يٰـهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ.

’’وہ بولے: اے ہود! تم ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لیکر نہیں آئے ہو‘‘۔

(هود، 11:53)

  • امت نے حضرت صالح علیہ السلام کا نام لے کر ان سے کہا:

وَقَالُوْا يٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَo

’’اور کہنے لگے: اے صالح! تم وہ (عذاب) ہمارے پاس لے آؤ جس کی تم ہمیں وعید سناتے تھے اگر تم (واقعی) رسولوں میں سے ہو‘‘۔

(الأعراف، 7: 77)

  • حضرت عیسی علیہ السلام کی امت آپ کا نام لے کر کہتی ہے:

اِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ يٰعِيْسَی ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيْعُ رَبُّکَ اَنْ يُّنَزِّلَ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ.

’’اور (یہ بھی یاد کرو) جب حواریوںنے کہا: اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تمہارا رب ایسا کر سکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (کھانے کا) خوان اتار دے‘‘

(المائدة، 5: 112)

ان آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ سابقہ امتیں اس طرح اپنے نبیوں کو پکارتیں، خطاب کرتیں اور ندا دیتیں مگر اللہ رب العزت نے امت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ سنو! حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے اُنہیں یا نوح کہا۔۔۔ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے یا صالح کہا۔۔۔ حضرت ھود کی قوم نے یا ھود کہا۔۔۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی امت نے یا شعیب کہا۔۔۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے یاعیسیٰ کہا۔۔۔ مگر خبردار! امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے کوئی شخص میرے محبوب کا نام لے کر انہیں نہ پکارے۔ میں رب ہو کر اپنے محبوب نبی کو نام لے کر نہیں پکارتا لہذا تم امتی ہو کرمیرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لے کر نہ پکارا کرو، تاکہ میرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور شانِ فردیت اس حوالے سے بھی قائم رہے۔ فرمایا:

لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمَ بَعْضًا.

’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)‘‘۔

(النور، 24: 63)

گویا اللہ رب العزت نے امت محمدیہ کا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانے کے انداز میں بھی شانِ فردیت قائم رکھی اور خود حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرنے کے انداز میں بھی شان فردیت قائم رکھی۔ شان فردیت کے اس تصور کو سمجھنے کے لئے ذہن نشین رہے کہ اللہ کا معاملہ پہلے نبیوں کے ساتھ کیا تھا۔۔۔؟ امتوں کا معاملہ اپنے نبیوں کے ساتھ کیا تھا۔۔۔؟ اللہ کا معاملہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا ہے۔۔۔؟ اور امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ مصطفی علیہ السلام کے ساتھ کیا ہے۔۔۔؟ ان چیزوں پر غور کرنے سے شانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فردیت اُجاگر ہوتی ہے کہ حضور علیہ السلام طبقہ انبیاء اور طبقہ رسل میں سے ہیں اور اس طبقہ میں سے بھی کسی کی شان آقا علیہ السلام کی شان جیسی نہیں ہے تو پھر ہمارے جیسے فروتر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثلیت اور برابری کا کس طرح تصور کر سکتے ہیں۔۔۔؟ جب آقا علیہ السلام کے اندازِ مخاطبت میں برابری نہیں، آقا علیہ السلام کے ذکرِ مبارک میں برابری نہیں، آقا علیہ السلام کے تذکرے میں برابری ممکن نہیں تو آقا علیہ السلام کی ذات اقدس کے ساتھ بشمول جملہ شانوں کے دیگر معاملات میں برابری کس طرح ممکن ہو سکتی ہے؟ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

شانِ محبوبیت میں فردیت

ہر امت اپنے نبی پر طعنہ زنی کرتی تھی جیسے کفار و مشرکین نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طعنہ زنی کی مگر قرآن گواہ ہے جس سابقہ امت نے اپنے نبی کو طعنہ و الزام دیا اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُس نبی کی امت کے طعنہ کا جواب خود اپنی طرف سے نہیں دیا بلکہ اُس نبی کو وحی فرمائی کہ وہ اس طعنہ کا جواب دیں۔

  • حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے طعنہ دیا:

قَالَ الْمَـلَاُ مِنْ قَوْمِهِ اِنَّا لَـنَـرٰکَ فِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍo

’’ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے کہا: (اے نوح!) بے شک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں‘‘

(الاعراف، 7: 60)

اب اس کا رد اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خود دفاع کیا ہو بلکہ نوح علیہ السلام کو وحی کی اور فرمایا: تم ان کا رد کرو۔ نوح علیہ السلام نے خود جواب دیا:

قَالَ يٰــقَوْمِ لَيْسَ بِیْ ضَلٰــلَـةٌ وَّلٰــکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰـلَمِيْنَo

’’انہوں نے کہا: اے میری قوم! مجھ میں کوئی گمراہی نہیں لیکن (یہ حقیقت ہے کہ) میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (مبعوث ہوا) ہوں‘‘۔

 (الاعراف، 7: 61)

  • اسی طرح حضرت ھود علیہ السلام کی قوم نے طعنہ دیا:

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهِ اِنَّـا لَنَرٰکَ فِیْ سَفَاهَةٍ.

’’ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو کفر (یعنی دعوتِ حق کی مخالفت و مزاحمت) کر رہے تھے کہا: (اے ہود!) بے شک ہم تمہیں حماقت (میں مبتلا) دیکھتے ہیں‘‘۔

(الأعراف، 7: 66)

حضرت ھود علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ان کے طعنے کا رد کرو۔ انہوں نے جواب دیا:

قَالَ يٰـقَوْمِ لَيْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّلٰـکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰـلَمِيْنَo

’’انہوں نے کہا: اے میری قوم! مجھ میں کوئی حماقت نہیں لیکن (یہ حقیقت ہے کہ) میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول (مبعوث ہوا) ہوں‘‘۔

(الاعراف، 7: 67)

  • حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر ہونے کا طعنہ دیا گیا۔ انہیں حکم ہوا کہ اے موسیٰ! ان کے طعنہ کو رد کرو۔ موسیٰ علیہ السلام نے جواب فرمایا:

قَالَ مُوْسٰی اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآئَکُمْ ط اَسِحْرٌ هٰذَا ط وَلَا يُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَo

’’موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: کیا تم (ایسی بات) حق سے متعلق کہتے ہو جب وہ تمہارے پاس آچکا ہے (عقل و شعور کی آنکھیں کھول کر دیکھو) کیا یہ جادو ہے؟ اور جادوگر (کبھی) فلاح نہیں پاسکیں گے‘‘۔

(يونس، 10: 77)

الغرض قرآن مجید میں کثرت کے ساتھ ایسے انبیاء علیہم السلام کا ذکر آیا ہے کہ ان کی اقوام نے ان پر اعتراض کئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن طعنوں کا ذکر بھی کیا اور نبیوں نے ان منکر قوموں کے طعنوں کا جو رد کیا، اللہ تعالیٰ نے اس رد کو بھی بیان فرمایا۔ پورا قرآن گواہ ہے کہ ہر جگہ نبی کو حکم ہوا کہ وہ منکرین کے طعنہ کو رد کریں، دفاعِ نبوت میں خود اللہ تعالیٰ نے جواب نہیں دیا۔ سابقہ کل انبیاء علیہم السلام کے لئے سنت الٰہیہ یہی تھی۔

مگر جب آقا علیہ السلام کی باری آئی اور آقا علیہ السلام کو منکرین و مشرکین مکہ نے طعنہ دیا تو قرآن مجید میں ایک جگہ بھی تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اے میرے محبوب! ان کے طعنہ کو رد کریں بلکہ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طعن و تشنیع کی گئی تو فرمایا: محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ایک طرف ہو جائیں، ان سے میں خود نمٹ لوں گا۔ ان بدبختوں کے طعنوں کے جواب دینے کی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ضرورت نہیں۔ میں جانوں اور میرا کام جانے۔ یہ اللہ رب العزت کی بارگاہ سے عطا کردہ شان مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فردیت ہے۔

  • کفار نے کہا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مجنوں ہیں۔ آقاe کی شان کے دفاع اور اس طعنہ کے رد میں سورئہ القلم میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:

نo وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَo مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍo

’’نون (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں) قلم کی قسم اور اُس (مضمون) کی قسم جو (فرشتے) لکھتے ہیںo (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں‘‘۔

(القلم، 68: 1-2)

اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے طعنہ اور اعتراض کا جواب دینے سے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روک دیا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب نہ دیں ان بدبختوں کو میں جواب دوں گا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں زبان درازی کرنے والوں کو اپنا مخاطب ہی نہیں بنایا کہ میرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کرنے والے اس قابل ہی نہیں کہ میں انہیں مخاطب بناؤں۔ لہذا ان کے طعنہ کے جواب میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

مَآ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍo

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں۔‘‘

(القلم، 68، 2)

یعنی کفارو مشرکین کو منہ ہی نہیں لگایا، اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ ان بدبختوں کو مخاطب کیا جائے۔ دوسرے مقام پر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشاق صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

وَ مَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍo

’’اور (اے لوگو!) یہ تمہیں اپنی صحبت سے نوازنے والے (محمد  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) دیوانے نہیں ہیں (جو فرماتے ہیں وہ حق ہوتا ہے)۔‘‘

(التکوير، 81: 22)

  • کفار کی طرف سے طعنہ زنی کی گئی کہ آق صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شاعر ہیں اور قرآن کی صورت میں شاعری کرتے ہیں۔ ان کے اس طعنہ کا جواب بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں دیا بلکہ رب کائنات نے خود جواب میں فرمایا:

اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍط قَلِیْـلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَo

’’بے شک یہ (قرآن) بزرگی و عظمت والے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالتاً اور نیابتاً بیان فرماتے ہیں)o اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں (کہ اَدبی مہارت سے خود لکھا گیا ہو)، تم بہت ہی کم یقین رکھتے ہو‘‘۔

(الحاقة، 69: 40-41)

  • کفار نے طعنہ دیا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم معاذ اللہ کاہن ہیں۔ اللہ رب العزت نے حضور  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں فرمایا کہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب دیں بلکہ رب کائنات نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

وَلَا بِقَوْلِ کَاهِنٍ ط قَلِيْـلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَo

’’اور نہ (یہ) کسی کاہن کا کلام ہے (کہ فنی اَندازوں سے وضع کیا گیا ہو)، تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو‘‘۔

(الحاقة، 69: 42)

  • کفار و مشرکین میں سے کسی نے قرآن کو جن/شیطان کا کلام کہا جو وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر القاء کرتے ہیں۔ رب کائنات نے جواب دیا:

وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍo

’’اور وہ (قرآن) ہر گز کسی شیطان مردود کا کلام نہیں ہے‘‘۔

(التکوير، 81: 25)

گویا اللہ تعالیٰ ہر جگہ جواب دے رہا ہے کہ میرے محبوب! آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب دینے کی زحمت نہ کریں، ان بدبختوں کے طعنوں کا رد میں خود کروں گا اور اس طریق سے رد کروں گا کہ میں انہیں مخاطب بھی نہیں کروں گا، کیونکہ میرے محبوب کی گستاخی کرنے والے اس لائق ہی نہیں کہ انہیں خطاب کیا جائے۔

  • آقا علیہ السلام کو عاص بن وائل سہمی نے معاذ اللہ ابتر ہونے کا طعنہ دیا کہ یہ منقطع النسل ہیں، ان کی نسل کٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ کوثر نازل فرمائی اور جواب دیا:

اِنَّآ اَعْطَيْنٰـکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo اِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْاَبْتَرُo

’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریںاور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکرّہے۔ بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا‘‘۔

(الکوثر، 108: 1-3)

میرے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منقطع النسل کہنے والے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ابتر ہیں، ان کا نام و نشان اس ہستی پر نہیں رہے گا مگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اور چرچا قیامت تک بلکہ بعد از قیامت قیام محشر اور اس کے بعد تک ہوتا رہے گا۔

  • وحی کے کچھ عرصہ رک جانے کو وجہ بناتے ہوئے کسی نے کہا کہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب اُن سے ناراض ہو گیا۔ فرمایا کہ اے میرے محبوب  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ جواب نہ دینا بلکہ میں خود آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کا دفاع کروں گا۔ آیت کریمہ اتار دی:

وَالضُّحٰیo وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰیo مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰیo

’’(اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ انور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کر دیا)o (اے حبیبِ مکرّم!) قَسم ہے سیاہ رات (کی طرح آپ کی زلفِ عنبریں) کی جب وہ (آپ کے رُخِ زیبا یا شانوں پر) چھا جائےo آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہے‘‘۔

 (الضحی، 93: 1-3)

  • کوہ صفا پر ابو لہب نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی دعوتِ حق پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہاتھ اٹھا کر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا کہ اے محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! (معاذ اللہ و استغفراللہ) تو برباد ہوجائے۔ تو نے اس لئے ہمیں بلایا تھا؟ اُس نے ہاتھ اٹھا کر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بدبختی کا کلمہ کہا۔ رب کائنات نے فرمایا: میرے مصطفی  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ملول و رنجیدہ خاطر نہ ہوں، میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ فرمایا:

تَبَّتْ يَدَآ اَبِیْ لَهَبٍ وَّتَبَّo

’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)‘‘۔

(اللهب، 111: 1)

  • گستاخانِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ولید بن مغیرہ کا نام بھی سر فہرست ہے۔ اس کی زبان درازیاں اور اہانت پردازیاں حد سے گزر گئیں تو اللہ رب العزت نے اس کی مذمت اور کڑی وعید کا اظہار درج ذیل آیات کریمہ میں فرمایا:

وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍo هَمَّازٍ مَّشَّآئٍم بِنَمِيْمٍo مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍo عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِيْمٍo اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِيْنَo

’’اور آپ کسی ایسے شخص کی بات نہ مانیں جو بہت قَسمیں کھانے والا اِنتہائی ذلیل ہے (جو) طعنہ زَن، عیب جوُ (ہے اور) لوگوں میں فساد انگیزی کے لیے چغل خوری کرتا پھرتا ہے (جو) بھلائی کے کام سے بہت روکنے والا بخیل، حد سے بڑھنے والا سرکش (اور) سخت گنہگار ہے (جو) بدمزاج درُشت خو ہے، مزید برآں بد اَصل (بھی) ہے اِس لیے (اس کی بات کو اہمیت نہ دیں) کہ وہ مالدار اور صاحبِ اَولاد ہے‘‘۔

(القلم: 10-14)

قرآن حکیم نے مذکورہ آیات میں اہانت و گستاخی کا ارتکاب کرنے والے کی نو واضح نشانیاں اور علامات بالترتیب گنوائی ہیں۔ ولید بن مغیرہ میں یہ تمام اخلاقی رذائل بدرجہ اتم موجود تھے۔ قرآن مجید نے اس دریدہ دہنی اور ہرزہ سرائی کے جواب میں جو وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کرتا رہتا تھا اس کی ماہیت و حقیقت کو کھلے عام بیان کردیا۔

الغرض الحمد سے والناس تک پورے قرآن میں ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں منکر قوم کے کسی طبقے نے یا کسی فرد نے آقا علیہ السلام کا انکار کرتے ہوئے طعنہ دیا ہو اور آقا علیہ السلام کو خود اس کا رد کرنے اور دفاع کرنے کی ضرورت پیش آئی ہوبلکہ طعنہ کے رد کے لیے خدا نے خود جواب دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ محبوبیت کی فردیت کا اظہار ہے۔

بچپن بھی شانِ فردیت کا حامل

شانِ نبوت، شانِ محبوبیت، شانِ ولادت، شانِ نسبِ طہارت اور آقا علیہ السلام کے ذاتِ پاک کے ہر ہر پہلو میں فردیت ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شان ِفردیت اس وقت بھی حاصل تھی جب آقا علیہ السلام معصوم بچے تھے۔ سیرت طیبہ سے ہمیں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس فردیت کا اظہار کرتے ہیں:

  • پورے شہر مکہ میں قحط ہو گیا، فصلیں اجڑ گئیں، پانی ختم ہوگیا تھا، سب کچھ سوکھ گیا۔ لوگ حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ کیا کریں؟ حضرت ابو طالب نے اپنے 8/9 سال کے بھتیجے حضور علیہ السلام کو ساتھ لیا اور کعبۃ اللہ کے پاس آگئے۔ کعبہ کے ساتھ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک لگا کر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھڑا کر دیا اور زبانِ حال سے کہنے لگے کہ میرے بھتیجے تو جان یا آسمان والا جانے، ہم تو بارش کے بغیر بےحال ہوگئے۔ حدیث کے الفاظ ہیں:

فَاَخَذَهُ اَبُوْ طَالب فالْصَقَ ظَهْرَهُ بِالْکَعْبَة وَلاذ باصبعه بالْغَلَامِ ومافی السماء قزعة فَاَقْبَلَ سِحَاب مِنْ هاهنا وهاهنا وَاَنْفَجَرَ له الْوَادِیْ واخصب الوادی وَالنَّادِیْ.

آٹھ سال کی عمر میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان فردیت، شان معجزیت، شان متصرفیت، شان قدرت اور کمال دیکھئے کہ اس سے قبل آسمان صاف تھا مگر جونہی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمان کی طرف اپنی انگشت مبارکہ سے اشارہ فرمایا۔ چاروں اطراف سے بادل گھر آئے اور موسلا دھار بارش ہونے لگی اور خشکی سبزے میں بدل گئی۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کی برکت سے آسمان سے بارش کا برسنا دیکھ کر حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ نے یہ شعر کہا جسے امام بخاری نے صحیح بخاری میں روایت کیا:

وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِلْاَرَامِلِ

يُطِيْفُ بِهِ الْهُلَّاکُ مِنْ آلِ هَاشِمٍ
فَهُمْ عِنْدَهُ فِي نِعْمَةٍ وَفَوَاضِلٍ

(الخصائص الکبریٰ، ذکرالمعجزات، 1: 146)

  • حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن کی شان فردیت کا عالم یہ تھا کہ اگر پاؤں زمین پر مارتے تو زمین مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہو جاتی اور پانی کے چشمے پھوٹ پڑتے۔ حضرت عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک 9/ 10 برس تھی، ایک سفر میں اپنے چچا حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ اس دوران سفر میں پانی ختم ہوگیا، شدت کی پیاس تھی، حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ پریشان ہو گئے۔ پیاس کی وجہ سے بیٹھ گئے اور عرض کرنے لگے: اے میرے بھتیجے! مجھ سے آگے چلا نہیں جاتا، اس پیاس نے میری جان ختم کر دی ہے، اب جب تک پانی نہ ملے میں آگے سفر نہیں کر سکتا۔ آقا علیہ السلام نے جب چچا جان کی اس حد تک پیاس دیکھی تو پاؤں پتھریلی زمین پر مارا، اسی وقت پتھر سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا اور فرمایا:

اِشْرِبْ يَا عَمّ!

چچا جان! اب جتنا جی چاہے پانی پی لیں۔

حضرت ابوطالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

میں نے پانی پیا اور پیاس بجھا لی۔

(الخصائص الکبریٰ، 1: 207)

یہ آقا علیہ السلام کی شان فردیت ہے۔ کسی کو خیال آئے کہ آٹھ سال کی عمر مبارک ہے ابھی اعلان نبوت بھی نہیں ہوا، تو قدم مارنے سے پتھر سے پانی کیسے نکل پڑا؟ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں اس لئے کہ اگر شیر خوارگی کی عمر میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے آب زم زم پھوٹ سکتا ہے تو قدم مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے پانی کا چشمہ کیوں نہیں نکل سکتا۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ولادت سے پہلے سفرِ نور میں بھی شان فردیت حاصل تھی۔۔۔ نسب کی طہارت میں بھی شان فردیت حاصل تھی۔۔۔ آدم علیہ السلام اور شیث علیہ السلام کا زمانہ تھا تب بھی شان فردیت تھی۔۔۔ دعائے ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام تھی تب بھی شان فردیت تھی۔۔۔ حضور علیہ السلام کی ولادت، آپ کا خانوادہ اور ان کی پاکیزگی کا معاملہ آئے تب بھی شان فردیت ہے۔۔۔ بچپن تھا تب بھی شان فردیت ہے۔۔۔ نبوت و رسالت کا اعزاز ہے تب بھی شان فردیت قائم ہے۔۔۔ اور جب وحی کا نزول ہوا تب بھی شان فردیت حاصل رہی۔۔۔ اللہ رب العزت کا آپ کو خطاب فرمانا یا امت محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہونا، اس حوالے سے بھی شانِ فردیت حاصل ہے۔۔۔ الغرض آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے ہر ہر پہلو میں اللہ رب العزت نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان فردیت کو قائم رکھا۔

پیغام محبت

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایمان کی بقا اور کمال کے لئے آقا علیہ السلام کے ساتھ محبت اور ادب کے تعلق کو اس طرح استوار کیا جائے کہ آقا علیہ السلام کے ادب، اطاعت اور محبت میں فنا ہو جائیں۔ ساری خیر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت میں ہے اور سارا شر حضور علیہ السلام سے کٹ جانے میں ہے۔ اُمت جب تک حضور علیہ السلام سے جڑی رہی، وہ خیر کے چشموں سے سیراب ہوتی رہی۔ جب سے ہم ادب مصطفی  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ، محبت مصطفی  صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اتباع مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کٹ گئے تو خیر سے محروم ہوتے ہوئے اور شر کے اندھیروں میں چلے گئے۔

تحریک منہاج القرآن کا شرق سے غرب تک یہ پیغام ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، ادب، احترام، اتباع اور اُسوہ و سیرت میں فنا ہوجائیں۔ جو لوگ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں، وہ لوگ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے بھی محبت کرتے ہیں، انسانیت سے محبت کرتے ہیں، ساری خلقت سے محبت کرتے ہیں۔ اُن کے وجود امن کے پیامبر ہوتے ہیں۔ اُن سے ہر ایک کو امن و سلامتی ملتی ہے۔ اُن میں انتہا پسندی، دہشت گردی، نفرت اور ایک دوسرے پر فتویٰ بازی نہیں ہوتی۔ وہ آگ لگانے والے نہیں بلکہ آگ بجھانے والے ہوتے ہیں۔

جبکہ دوسری طرفجن کے مزاج میں سختی، درشتی، انتہا پسندی ہے، جو بولتے ہیں تو اُن کے منہ سے نفرت کی آگ نکلتی ہے، ان کے فتووں سے امت کی تفریق ہوتی ہے، وہ ٹوٹے ہوئے لوگوں کو جوڑتے نہیں اور نہ ہی گرے ہوئے لوگوں کو اُٹھاتے ہیں۔ان کا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے عشق و محبت اور غلامی کا ہرگز کوئی تعلق نہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن نے نفرتوں کی آگ نہیں جلائی بلکہ ہمیشہ محبت کے پانی سے نفرتوں کی آگ بجھائی ہے۔۔۔ ہم نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اس طرح فروغ دیا ہے کہ جس سے دل بھی پرسکون ہوں اور سیرت و کردار میں بھی نرمی اور آسانی آئے۔۔۔ وعظ و نصیحت بھی ٹھنڈے مزاج کے ساتھ ہو اور معاملات میں بھی حسن سلوک نظر آئے۔۔۔ اگر ہم آقا علیہ السلام کی سیرت و سنت کی طرف عشق و محبت کے تعلق کے ساتھ بڑھیں گے تو اللہ کی رحمت کا مستحق قرار پائیں گے اور اسی صورت سر زمین پاکستان پر خیر نازل ہوگی اور ہم عذابِ الٰہی سے نجات پا جائیں گے۔

مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام محبت کا پیغام ہے۔ یہ پیغام انسانیت کو جوڑنے، امن، بقا، فلاح، بہبود، خیر اور انسانیت کی خدمت، دُکھی لوگوں کے دلوں کا سہارا بننے، پریشان حال لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دینے اور لوگوں کو اُن کی ضروریات بہم پہنچانے اور خوشیاں دینے کا نام ہے۔ یہ تمام صفات میرے آقا علیہ السلام کا اُسوہ و سیرت ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت بھی کریں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوہ اور سیرت کی اتباع بھی کریں۔ تحریک منہاج القرآن اسی پیغام اور تعلیم کی نقیب ہے۔ قرآن مجید، حدیث رسول، سنت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا فروغ اور انہیں اپنے کردار میں ڈھالنا ہی منہاج القرآن کی تعلیم ہے۔

اللہ رب العزت امت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے لطف و کرم اور آقا علیہ السلام کی رحمت کی بارش کا نزول فرمائے۔ آقا علیہ السلام کے فیوض و برکات، توجہات کا ایسا فیض عطا فرمائے کہ یہ ملک امن، سلامتی اور خیر کی دھرتی بن جائے اور ہر فتنہ و شر، خون آشامی اور انتہا پسندی، و دہشت گردی یہاں سے رخصت ہوجائے۔ یہ اس صورت ممکن ہے جب ہم محبت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ اتباعِ تعلیماتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی حرزِ جان بنائیں۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جنوری 2016

تبصرہ