معاشی و نظریاتی دہشت گردی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟

عین الحق بغدادی

مملکتِ خداداد پاکستان آج ایک نہیں بلکہ کئی قسم کی دہشت گردی کا شکار ہے۔ جس میں مسلح دہشت گردی، سیاسی دہشت گردی، معاشی دہشت گردی، نظریاتی و فکری دہشت گردی نمایاں ہیں۔ ہمیں دہشت گردی کی ہر قسم کی جانب متوجہ ہوکر ان کی نہ صرف بیخ کنی کرنا ہوگی بلکہ ان اسباب و ذرائع کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا جو ان دہشت گردیوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ آیئے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

مسلح دہشت گردی

پاکستان میں گزشتہ 13سال میں تقریباً 55 ہزار جانیں ضائع ہوئیں۔ دہشت گردی کے اس عفریت سے نمٹنے کیلئے اس وقت پوری قوم فوج کی قیادت میں کمر بستہ ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پالیسی بنانا، قانون سازی کرنا اور عمل کروانا پارلیمنٹ کا کام ہے مگر حکومت کی ناکامی کے بعد اب یہ ذمہ داری فوج نے سنبھال لی ہے۔ امید ہے کہ ضربِ عضب کے نتیجے میں ان شاء اللہ پاک سرزمین اس عفریت سے نجات حاصل کرلے گی۔

دہشتگردی کا یہ ’’تحفہ‘‘ ہمیں ہمارے حکمرانوں ہی کی وجہ سے ملا۔ اس لئے کہ یہ دہشت گرد ہمارے حکمرانوں ہی کے پالے ہوئے ہیں اور گذشتہ کئی دہائیوں سے انہوں نے ان دہشت گردوں سے صرفِ نظر کئے رکھا جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ اس مسلح دہشت گردی کی وجہ سے ملک میں بدامنی پھیلی، سرمایہ کار دوسرے ممالک کا رخ کرنے لگے اور بیرونی سرمایہ کار ہمارے ملک میں انویسٹمنٹ سے ڈرنے لگے۔ کرپٹ سیاسی جماعتیں اور اقتدار پر مسلط کرپٹ حکمرانوں نے اپنی کرپشن اور ناپاک عزائم کے حصول اور سیاسی مخالفوں کو کچلنے کیلئے انہی دہشتگردوں کا سہارا لیا۔ یہ عوام کے بنیادی حقوق غصب کرتے ہوئے عوام کی دولت لوٹ لوٹ کر بیرون ملک بینکوں میں منتقل کرتے رہے اور اپنی جائیدادیں بنانے میں مصروف رہے۔ پاک آرمی جب ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی بات کرتی تو ہمارے سیاست دان جو اصل میں دہشت گردوں کے سہولت کار تھے، حیلے بہانے کرتے اور دہشت گردوں کو تیاری کرنے یا بچنے کے مواقع فراہم کرتے۔

ان حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پاکستان آرمی کے جوانوں کے حوصلے بلند کیے اور دہشت گردی کی جنگ میں شہادت کے رتبے کو عام حالات کی شہادت سے قرآن و سنت سے 10 گنا زیادہ ثابت کر کے پاک آرمی کے دہشتگردی کے خلاف لڑنے کے جذبے کو تقویت بخشی۔ انہوں نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کو بے سود قرار دے کر دہشت گردی کا حل قومی آپریشن ہی قرار دیا۔

معاشی دہشت گردی

اس ملک میں کچھ اور ایسے عوامل بھی ہیں جو دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہیں مگر ہماری توجہ ان کی طرف نہیں جاتی۔ اگر ہم اس طرف متوجہ نہ ہوئے تو اس کے نتائج پوری قوم کو بھگتنا ہوں گے اور یہ سلسلہ شروع بھی ہوچکا ہے۔ افسوس کے جس طرح ہمارے حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ملک مسلح دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا ہے، اسی طرح پورا ملک ان نااہل حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے سیاسی و معاشی دہشت گردی کا بھی شکار ہوچکا ہے۔ مسلح ہوکر لوگوں کو مار ڈالنا، خودکش دھماکے کرنا ہی صرف دہشت گردی نہیں بلکہ عوام کو شعوری طور پر اُن کے حقوق نہ دینا اور ان کے بنیادی حقوق تک کو پامال کرنا بھی دہشت گردی ہی ہے۔ آیئے ان نااہل حکمرانوں کی سیاسی و معاشی دہشت گردی پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

  1. روٹی ،کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے اور آئین کے آرٹیکل 37اور 38 کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ان بنیادی حقوق کی دستیا بی ممکن بنائے۔ افسوس کہ ہر سال سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے ہمیں جو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے، حکمران ان کے ازالہ اور سیلاب کی روک تھام کے بندوبست کرنے سے بھی عاری ہیں۔ حکومت کی طرف سے متاثرین کیلئے چند ارب روپے تقسیم کیے جاتے ہیں جبکہ عوامی حلقوں اور سماجی تنظیمات کی طرف سے دی جانے والی امداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اور یہ Exerciseہر سال دہرائی جاتی ہے اگر حکمران عقل مند اور محب وطن ہوں تو اتنے پیسوں سے سیلاب کو روکنے کا بندوبست کیا جاسکتا ہے اور جانی و مالی نقصان سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
  2. صحت اور علاج معالجے کی سہولیات کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 5 سال سے کم عمر 3 لاکھ 52 ہزار بچوں کی اموات واقع ہوتی ہیں۔ پیدائش کے وقت ایک ہزار میں سے 48 بچے پیدائش کے پہلے دن موت کا شکار ہو تے ہیں اور یہ شرح باقی ممالک کے مقابلے میں بلند ترین شرح ہے۔ اسی طرح پاکستان میں دوران زچگی سالانہ 28 ہزار مائیں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
  3. اگر تھرپارکر میں قحط سالی کی وجہ سے 648 بچے مرتے ہیں تو اس سال فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں بچوں کی رجسٹرڈ اموات 2300 تک پہنچ گئی تھیں اور سرگودھا میں صرف ایک ماہ میں غریب خاندانوں کے 80بچوں کی اموات طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہوئی۔
  4. اسی طرح تقریباً 25 فیصد بچے غذائی قلت کی وجہ سے کم وزن پیدا ہوتے ہیں اور 40فیصد بچے غذائی قلت کی وجہ سے ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہوتے ہیں۔سالانہ 71000 بچے نمونیا کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔
  5. جو والدین سکولوں کی فیس برداشت نہیں کر سکتے وہ بچوں کو مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔ کچھ اپنے بچوں کو دینی مدارس میں روٹی کی خاطر بھجوا دیتے ہیں جہاں وہ دہشت گرد بنتے ہیں یا متعصب مولوی جو کسی بھی صورت دہشت گرد سے کم نہیں ہوتے۔ حکومتی تعلیمی اداروں میں معیار تعلیم اتناز کمزور ہے کہ بچوں کا کردار بننے کے بجائے بگڑتا ہے۔ حکومتی نظام تعلیم کا کمزور ہونا فطری عمل ہے کیونکہ بڑے پرائیویٹ سکولز کے مالکان کسی نہ کسی طرح حکومتی مشینری کا حصہ ہوتے ہیں اور اُن کی شعوری کوششوں سے پرائیویٹ اور سرکاری سکول سسٹم میں فرق واضح کرنے کیلئے حکومتی نظام تعلیم کو کمزور رکھا جاتا ہے تاکہ لوگ پرائیویـٹ سکول میں بچے کے داخلے پر مجبور ہو جائیں اور حکمرانوں کا کاروبار تعلیم بھی چلتا رہے۔
  6. planning and division development کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد ایک لاکھ 67 ہزار سات سو ہے یعنی 1206 افراد کیلئے ایک ڈاکٹر ہے۔ 1665 مریضوں کیلئے ہسپتال میں ایک بستر ہے۔16426 افراد کیلئے ایک ڈینٹل ڈاکٹر ہے۔ مناسب تنخواہیں اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی ڈاکٹرز دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ صرف امریکہ میں اس وقت 17 ہزار پاکستانی ڈاکٹرز ہیں اور کئی ڈاکٹرز گورنمنٹ ہسپتالوں کو چھوڑ کر پرائیوٹ ہسپتال کا رخ کر رہے ہیں۔جو ہسپتال موجود ہیں وہاں ادویات اور دیگر آلات کی کمی ہے اور جہاں ڈاکٹرز موجود ہیں وہاں ڈاکٹرز کو سہولیات نہ ملنے کیوجہ سے ہر آئے دن ڈاکٹرز ہڑتال پر رہتے ہیں۔ تاجر حکمران ملک کے سرکاری اداروں کو آہستہ آہستہ اپنی تحویل میں لے رہے ہیں اور اسی سلسلے میں اس وقت سرکاری ہسپتالوں کوپرائیویٹ کیا جارہا ہے تاکہ عوام کے سانس بھی اب ان تاجر حکمرانوں کے ہاتھ میں ہوں اور مجبور و بے بس سسکتی ہوئی عوام کے پاس جو کچھ ہے وہ اپنے پیاروں کی سانسوں کے بدلے ان کی جیبوں میں آ جائے۔
  7. ان حکمرانوں کی صحت بارے پالیسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1980ء میں ایک یونین کونسل کیلئے ایک بنیادی مرکز صحت قائم کیا گیا تھا جو آج بھی ایک ہی ہے البتہ اس کی حالت بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہو گئی ہے اور عملہ وہاں سے غائب ہے جبکہ 1980ء کے مقابلے میں آبادی 4گنا بڑھ گئی ہے۔ اب آبادی کے تناسب سے ان دیہی طبی مراکز کو ایک سے بڑھ کر 4 ہونا چاہیے تھا، اس سے حکومتوں کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔
  8. گیسٹرو، ہیپاٹائٹس اور کئی دیگر بیماریاں پانی کی خراب صورتحال کی وجہ سے جنم لے رہی ہیں۔ اس وقت پانی کی قلت کے اعتبار سے پاکستان پہلے سترہ ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان کی دو تہائی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ وفاقی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ذیلی ادارے پی سی آر ڈبلیو آر جو ملک میں پانی کے متعلقہ مسائل کے ادارک اور ان کے حل کیلئے کام کرتا ہے کے چیئرمین نے بی بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب پاکستان وجود میں آیا اس وقت ہر شہری کیلئے پانچ ہزار 6 سو کیوسک میٹر پانی تھا جو کم ہو کر 2012ء میں ایک ہزار کیوسک میٹر رہ گیا تھا اور 2025ء میں یہ مقدار کم ہو کر 8 سو کیوسک میٹر رہ جائے گی۔ ایسے حالات میں جب پانی کی مقدار کم ہو رہی ہو پانی کے ذخائر بنانے کی ضرورت ہے۔ 1976ء کے بعد سے ابھی تک کوئی خاطر خواہ ڈیم یا ذخیرہ نہیں بنایا گیا۔ حالانکہ اگر صرف سیلاب کے پانی کو ہی محفوظ کر لیا جائے تو یہ زراعت اور بجلی کیلئے کافی ہے۔

یہ وہ چیزیں ہیں جو پاکستانی عوام کیلئے مسلح دہشتگردی سے زیادہ خطرناک ہیں مگر ہمارے حکمران دانستہ طور پر اِن امور کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔

ان حالات میں قائد انقلاب نے اپنی منصبی ذمہ داری کے مطابق نہ صرف ان مسائل کے بارے عوام کو آگاہ کیا بلکہ بیداری شعور مہم کے ذریعے دسمبر 2012ء سے لے کر 21 اکتوبر 2014ء دھرنے کے اختتام تک بالخصوص اس سیاسی و معاشی دہشت گردی کے ذمہ داران حکمرانوں کے چہروں کو بے نقاب کیا۔ آپ نے ان مسائل کے اسباب و محرکات کے بارے میں بھی قوم کو آگاہ کیا اور پھر اس پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان مسائل کے خاتمے کیلئے عملی طور پر میدان میں نکلے۔ اس موقع پر پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان نے اس ملک اور عوام کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اسلام آباد کی طرف تاریخی لانگ مارچ کیا اور دھرنا دیا۔ آج ملک میں دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی بات ہو یا کرپٹ اور بددیانت حکمرانوں کی گرفت کی بات، یہ تمام PAT کے کارکنان کی قربانیوں ہی کے مرہون منت ہے۔ وگرنہ قائد انقلاب کی انقلابی جدوجہد سے قبل تو یہاں کے حالات ہی یکسر مختلف تھے۔ راوی حکمرانوں کے لئے ہر طرف چین ہی چین لکھتا تھا۔ قائد انقلاب کی جدوجہد PATکے کارکنان کی قربانیوں کی بدولت پاکستانی عوام اور ملکی ذمہ دار اداروں کو سوچ ملی۔ پس آج دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کیلئے جو کچھ ہورہا ہے وہ PAT کی دی ہوئی سوچ ہی کا نتیجہ ہے۔

نظریاتی دہشت گردی

مسلح دہشت گردی کا کماحقہ خاتمہ اسی صورت ممکن ہے جب اس رویہ کو جنم دینے والے نظریات و افکار کو بھی ان کی بنیادوں سے ختم کیا جائے۔ ایک وقت تھا کہ عوام کیا خواص بھی دہشتگردی کے لفظ سے ناآشنا تھے مگر حضرت انسان کی خواہشات کے حصول کے جنون نے آج لفظ دہشت گردی کو اتنا عام اور معروف کر دیا ہے کہ خواص کیا عوام کا بچہ بچہ نہ صرف اس منحوس لفظ سے آشنا ہے بلکہ براہ راست دہشت گردی سے متاثر بھی ہے۔ اس وقت زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں دہشت گردی کے آثار نہ ہوں اور اب یہ ہمارے معاشرے کا ایسا ناسور بن چکے ہیں جس سے چھٹکارے کا ہر کوئی خواہاں ہے۔

جب جسم کا کوئی حصہ خراب ہو جائے اور علاج معالجے کے باوجود درست نہ ہو اور جسم کیلئے ناسور بن جائے تو ایسی صورت میں باقی جسم کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کا تقاضا ہے کہ اس ناسور کو کاٹ کر جسم سے علیحدہ کر دیں۔ مگر یہ عمل کب ہو گا۔۔۔؟ جب بیماری کی تشخیص ہو جائے گی کہ یہ فلاں بیماری ہے اور اب تقریباً لاعلاج ہو چکی ہے۔ بیماری کی تشخیص و تعین کیلئے کسی ماہر طبیب کا ہونا ضروری ہے اور پھر ماہر سرجن ٹیم کا ہونا بھی ضروری ہے کہ جس حصے کو ماہر ڈاکٹر نے متعین کیا وہ اسی حصے کو ماہرانہ طریقے سے الگ کریں۔ ان دونوں ٹیموں کی کم علمی کی بنا پر انسانی جان بھی جا سکتی ہے۔

قابل افسوس امر یہ ہے کہ آج تک نہ تو دہشت گردی کی کسی ایک تعریف پر بین الاقوامی معاشرے کا اتفاق ہے اور نہ ہی دہشت گردی کے اسباب کا تعین کیا گیا تاکہ تمام ممالک و اقوام اس نا سور کا مل کر مقابلہ اور خاتمہ کر سکیں۔ ہر کسی نے دہشت گردی کی اپنی اپنی تعریف گڑھ لی جس سے اسے دوسروں کو قتل کرنے اور برباد کرنے کا جواز مہیا ہو گیا۔یہاں تک کہ ایک گروہ نے دہشت گردی کے نظریے سے ہی انکار کردیا اور کہا کہ دہشت گردی ایک نظریہ نہیں بلکہ ایک عمل اور کارکردگی کا نام ہے۔۔۔ کچھ نے کہا کہ اسلحہ کے ذریعہ سیاسی مقاصد کے حصول کا نام ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔۔۔ یہاں تک کہ اقوام عالم کی نمائندہ تنظیم اقوام متحدہ نے بھی آج تک دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف نہیں کی جس پر سب متفق ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک قوم، ملک ،دین یا مذہب سے تعلق رکھنے والا دہشت گرد دوسرے کے نزدیک آزادی کا مجاہد اور ہیرو ہے۔ دہشت گردی کے نظریے کے پیروکاروں نے تو یہ فتویٰ بھی جاری کر دیا کہ اسلام کی عظمت اور اسلامی حکومت کے قیام کیلئے معصوم شہریوں کا قتل بھی جائز ہے تاکہ ریاست کو کمزور کیا جا سکے، اسی وجہ سے مختلف بازاروں، مساجد، گرجا گھروں، سکولوں اور عوامی مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور یہ ایسے ہی تھا جیسے خنزیر کو دنبے کی کھال پہنا کر ذبح کیا جائے اور وہ حلال ٹھہرے۔

اسی دہشت گردی کی آڑ میں کئی بڑے ممالک نے کئی چھوٹے ممالک کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور انسانی حقوق کی وہ پامالی ہوئی کہ انسان کی روح بھی لرز اٹھے۔ یہ سب اسی لیے ہوا کہ بین الاقوامی معاشرہ دہشت گردی کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں اور اپنی اپنی تعریفات کے تحت ہر طاقتور اپنے اہداف و مقاصد کو آگے بڑھارہا ہے اور اپنے دشمنوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جنگ لڑ رہا ہے۔دہشت گردی کوئی ایسا عمل نہیں جو ایک دم وجود میں آئے اور بندہ بندوق لے کر نکل کھڑا ہو بلکہ یہ عمل ایک مخصوص نظریے کی مسلسل پرچار سے پروان چڑھتا ہے۔ پھر اس نظریے کے غلبے کیلئے مسلح جدوجہد شروع ہوتی ہے، لہٰذا دہشت گردی کا خاتمہ دہشت گردی کے اسباب جانے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا میں اس وقت دہشت گردی مندرجہ ذیل نظریوں کے تحت ہورہی ہے:

  1. قومی نظریے کی بنیاد پر
  2. مذہبی نظریے کی بنیاد پر
  3. کیمونزم یا ترقی پسندی کی بنیاد پر
  4. معاشی ناانصافی کی بنیاد پر
  5. سیاسی ناانصافی کی بنیاد پر

ان نظریات کی تقویت کیلئے اور بزور طاقت دوسروں پر مسلط کرنے کیلئے عسکری ونگ وجود میں آئے ہیں۔ اب طاقت کے زور پر ان عسکری ونگز کو تو ختم کیا جا سکتا ہے، انہیں کمزور کر کے مذاکرات کی ٹیبل پر لایا جا سکتا ہے مگر دہشت گردی کو جڑ سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی کو اگر جڑ سے اکھاڑنا ہے تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ دہشت گردوں کو کمزور کرنے کے بعد ان کے دہشت گردانہ نظریات و افکار کو ختم کیا جائے اور نظریاتی خاتمے کیلئے بندوق کی نہیں علم کی ضرورت ہے اور جن جن ذرائع سے (یعنی مدارس، مساجد، تبلیغ، سکول و کالجز ) دہشت گردی کے نظریات کا آغاز ہوا ہے انہی ذرائع سے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جس چیز کا جہاں سے آغاز ہوتا ہے وہیں سے اس کا خاتمہ ممکن ہے۔

شیخ الاسلام کے عملی اقدامات

افسوس یہ ہے کہ دہشت گردوں کو مختلف سیاسی و سماجی مافیاز نے بھی اپنے مقاصد کے حصول میں مخالفین کو کچلنے کیلئے استعمال کیا اور بدلے میں دہشت گردوں کو ڈھیل بھی دی گئی اور کسی بھی حکومت نے اس عفریت کو نہ سمجھا نہ اس سے نمٹنے کیلئے کوئی پلاننگ کی۔دہشت گردی کے بارے میں بین الاقوامی معاشرے کے ذہنوں میں باقی رہ جانے والی الجھنوں اور گوں مگوں کی کیفیت میں پہلی بار دہشت گردی کی نظریاتی و فکری بیخ کنی کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انسانیت کو دہشت گردی کے خلاف مبسوط تاریخی فتویٰ کی صورت میں ایک مضبوط اور مکمل ڈاکومنٹ دیا اور یہ واضح کر دیا کہ دہشت گردوں کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ انسانیت سے کوئی تعلق۔ دہشت گردی پر لکھنے جانیوالے اس مبسوط فتویٰ کا دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ شیخ الاسلام نے اپنے فتویٰ میں دہشت گردی کے اسباب سے لے کر ان کے قلع قمع کرنے تک کے تمام افکار کو قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کیا۔

دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ فتویٰ جاری کرنے کے بعد شیخ الاسلام نظریاتی دہشت گردی کے خاتمے کی جانب متوجہ ہوئے اور دہشت گردی کے نظریات کے خاتمے کیلئے باقاعدہ امن نصاب متعارف کروایا جو متن (Text) کی 5 کتابوں سمیت 25 کتابوں پر مشتمل ہے۔ یہ نصاب کسی ایک طبقہ کے لئے نہیں بلکہ ہر طبقہ فکر کیلئے مرتب کیا گیا۔ اس امن نصاب میں بنیادی نقطہ یہی ہے کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی ناطہ نہیں بلکہ اسلام اپنے آغاز ہی سے دہشت گردی کا مقابلہ کررہا ہے۔ جب ہر طرف انسانی حقوق کی پامالی تھی، تلوار اور طاقت کے زور پر غیر انسانی رویوں کو پروان چڑھایا جارہا تھا ایسے وقت میں اسلام نے اس بربریت کا مقابلہ بھی کیا اور خاتمہ بھی اور اسلامی اقدار اپنا کر دیگر ادیان کے ساتھ رہتے ہوئے پرامن زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط بھی سب سے پہلے اسلام نے وضع کیے۔ آج بھی دنیا سے دہشتگردی کا خاتمہ اسلام کے انہی بنیادی اصولوں پر عمل کرنے سے ممکن ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشت گردی کے ایشو پر ہر وقت اداروں کی رہنمائی فرمائی۔

  • دہشت گردی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

’’غربت، معاشی ناہمواری، بے روزگاری اور ظلم و استحصال کا خاتمہ کیے بغیر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں‘‘۔

آج اگر ہم غور کریں تو دہشت گردی کی ایک ابتدائی وجہ بیروزگاری ہے۔ وہ نوجوان جنہیں کاروبار، نوکری نہیں ملتی وہ مایوس ہو کر ڈاکہ زنی اور قتل و غارت کرتے ہیں۔ معاشی ناہمواری و ناانصافی مقامی و بین الاقوامی دہشت گردی کا سبب بنتی ہے۔

  • دہشت گردوں کے بارے میں آپ کا موقف بالکل واضح ہے کہ

’’جہاد کے نام پر دہشت گردی کرنے والے مسلمان تو کجا انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں‘‘۔

  • حکومتی حلقوں کو ان کی ذمہ داریاںیاد دلائیں کہ

’’دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے غیر مبہم قانون سازی ناگزیر ہے‘‘۔

  • دہشت گردی کے خاتمے میں ایک بڑے رکاوٹ یہ ہے کہ کوئی بھی ملک اسے قبول کرنے کو تیار نہیں اور ہر کوئی دوسرے کو موردالزام ٹھہراتا ہے۔ اس کا حل یوں دیا کہ

’’دہشت گردی کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دئیے بغیر اس کا خاتمہ ممکن نہیں‘‘۔

  • ملک کے اندر موجود دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے قانون سازی کی ضرورت اور نظام عدل کو یوں بیان کر تے ہیں کہ

’’دہشت گردی کا خاتمہ اور بے باکانہ سدباب تبھی ممکن ہے جب متعلقہ خصوصی عدالتیں ، ادارے اور ایجنسیاں براہ راست فوج کے ماتحت ہوں‘‘۔

یہ بات شیخ الاسلام نے بہت پہلے کہہ دی تھی مگر ہماری نااہل حکومت، حکمران اس عمل سے اس لیے ڈرتے تھے کہ ایسا کرنا کہیں ان کے اپنے گلے نہ پڑ جائے۔ آخر کار مجبوراً انہیں ایسا کرنا پڑا مگر جب فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو خصوصی عدالتیں جو عرصہ دراز سے عملی طور پر معطل تھیں ایک دم سے ایکٹو ہو گئیں اور فوری فیصلے آنے لگے کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ اگر یہ کیسز فوجی عدالتوں میں چلے گئے تو پھر نتائج مختلف ہونگے۔

  • عرصہ دراز قبل معاشرے میں پیس سنٹرز قائم کرنے کے متعلق شیخ الاسلام نے فرمایا:

’’نوجوانوں کو دہشت گردوں کا آلہ کار بننے سے بچانے کیلئے اسلام کی تعلیمات امن کو فروغ دینے کیلئے بڑے پیمانے پر پیس ایجوکیشن سنٹرز قائم کیے جائیں‘‘۔

  • اب ظاہری بات ہے کہ اگر یہ پیس ایجوکیشن سنٹرز قائم کیے جائیں تو ان میں کچھ پڑھانا بھی ہو گا۔ لہذا آپ نے صرف مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ ایک مکمل نصاب امن بھی دیا جو کسی ایک طبقہ فکر کیلئے خاص نہیں بلکہ ہر کسی کیلئے ہے۔ جو کام حکومت کے کرنے کے تھے افسوس وہ لوٹ مار میں مصروف ہونے کی وجہ سے نہ کر سکی۔

اس وقت نصاب امن کی تقریبات رونمائی اور تعارفی تقریبات پوری دنیا میں منعقد ہورہی ہیں۔ اس مقصد کے لئے شیخ الاسلام خود یورپ کے دورے پر ہیں اور علالتِ طبع کے باوجود تجدید دین اور احیائے اسلام کے سلسلہ میں یہ اہم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس نصاب کے تعارف کے ساتھ ساتھ وہ پیس سنٹرز بھی قائم کرینگے اور اس کام کو سرانجام دینے کیلئے پیس ایمبسیڈرز بھی تعینات کرینگے۔

  • دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے نظریات و اسباب کی طرف بھی آپ نے بہت آغاز میں ہی اشارہ کر دیا تھا کہ

’’دہشت گردی کے خاتمے کیلئے فرقوں اور انتہا پسندی کو تقویت دینے والے لٹریچر پر پابندی انتہائی ضروری ہے۔ وہ دینی مدارس جہاں ان نظریات کو پڑھایا جاتا ہے اور تقویت دی جاتی ہے۔ ایسے مدارس کے نظام اور نصاب میں اصلاحات اور یکسانیت کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والوں کو کڑی سزائیں دئیے بغیر دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑنا ممکن نہیں۔‘‘

  • ہمارے ملک میں دہشت گردی کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ کچھ پڑوسی اسلامی ممالک اپنے عقائد و نظریات کی جنگ پاکستان میں موجود دینی مدارس کے ذریعہ لڑتے ہیں اور اس مقصد کیلئے وہ مدارس کو فنڈنگ بھی کرتے ہیں۔ حکومت کو اس کا علم بھی ہے مگر سیاسی مفاہمت کی وجہ سے وہ اس ایشو سے آنکھ چراتے رہے۔ شیخ الاسلام نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے دینی مدارس، جماعتوں اور تنظیموں کو ملنے والی بیرونی فنڈنگ کو بند کرنا انتہائی ضروری ہے۔

شیخ الاسلام نے دہشتگردی کی تعریف، اسباب اور اس کے عسکری و نظریاتی ونگز کے خاتمے کیلئے بڑی عمدہ و عظیم اور قابل عمل پالیسی دی مگر قابل افسوس امر یہ ہے کہ سیاسی تعصب میں بدمست حکمرانوں نے آج تک دہشت گردی کے خلاف منظم پلاننگ پر توجہ نہیں دی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شیخ الاسلام کے متعارف کردہ امن نصاب کو بھرپور فروغ دیا جائے۔ اس ضمن میں کسی بھی قسم کے تعصب کو آڑے نہ آنے دیا جائے۔ ہم سب کسی نہ کسی طرح دہشت گردانہ نظریات کا قلع قمع چاہتے ہیں مگر افسوس کہ کسی کی اچھی بات کو بھی اس لیے قبول نہیں کرتے کہ کہیں ایسا کرنے سے اس شخصیت کو کوئی کریڈٹ نہ مل جائے۔ اگر ہم اپنے ملک کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں اور اس دہشتگردی سے پاک کر کے دنیا میں باوقار قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہر سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کو سپورٹ کرنا ہو گا اور سیاسی و مذہبی وابستگی و تعصب سے بالاتر ہو کر ملک و قوم اور دین کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

اگر ہم خود اس موضوع پر کوئی کام نہیں کر سکے تو پھر شیخ الاسلام کی کاوش و جدجہد کو نہ صرف تسلیم کرنا ہوگا، اسے عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور مختلف آرگنائزیشنز سکولز و کالجز اور اداروں کے ذریعہ اس نصاب کو فروغ دینا ہوگا۔

اس امن نصاب کو آج عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سطح پر دہشت گردی کے نظریات کو ختم کیا جا سکے کیونکہ دہشت گردی کی اس خطرناک قسم کا خاتمہ اسلحے کے ذریعہ نہیں بلکہ علمی و فکری حکمت عملی اور ذہنوں کی تبدیلی سے ممکن ہو گا اور اس کیلئے کوئی ایک فرقہ ،کوئی ایک سیاسی جماعت یا گروہ اس سے نبردآزما نہیں ہو سکتا بلکہ قومی سطح پر تعصب سے بالا ہوکر ان معتدل نظریات کو قبول بھی کرنا ہو گا اور عام بھی۔ پاک افواج نے قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردی کے عسکریت ونگز کا خاتمہ کر دیا ہے، اب ہمارا فرض ہے کہ ضربِ علم کے ذریعے دہشت گردانہ نظریات کا خاتمہ کر کے ہمیشہ کیلئے دہشتگردی کو دفن کر دیں۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن - اکتوبر 2015

تبصرہ