شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
تصور علم اور نظام تعلیم میں مقصدیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ہمارا موجودہ نظام تعلیم مقصدیت سے خالی ہے۔ طلبہ سال اول سے لے کر 16 سال تک صرف پڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، مقصد سے ہرگز آگاہ نہیں۔ جب Professional Education حاصل کرتے ہیں تو ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی دھن سوار ہوجاتی ہے۔ مقام غور یہ ہے کہ کیا محض پروفیشنل بن جانا زندگی کا مقصد تھا۔۔۔؟ نہیں، بلکہ یہ تو روزگار کمانے کا ایک ذریعہ تھا۔ مقصدیت تو کچھ اور تقاضا کرتی ہے۔ انسان کی تخلیق کے مقصد کو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ
’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں‘‘۔
(الذاريات: 56)
اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق اپنی معرفت اور بندگی کے رشتے کو مضبوط کرنے کے لئے کی۔ کسی خاص ہنر/فن میں پروفیشنل بننا یہ تو وہ چھوٹے چھوٹے ذرائع ہیں جس سے انسان روزگار حاصل کرتا اور معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار اداکرتا ہے۔
مقصدِ علم کی جہات
تعلیم کا مقصد دو جہات پر مبنی ہونا چاہئے:
- انفرادی
- اجتماعی و معاشرتی
انفرادی مقصد
انفرادی مقصد تو یہ ہے کہ علم کے ذریعے انسانی شخصیت کے ہر ہر پہلو کی تکمیل و نشوونما ہو۔ یہ اسلام کے دیئے ہوئے تصور علم اور نظام تعلیم کی بنیادی خوبی ہے کہ اس سے انسان کی شخصیت کے ہمہ جہتی پہلوئوں کی Development ہو یعنی انسانی شخصیت کے حیاتیاتی پہلو (Biological Aspects)، عمرانی اور سماجی پہلو (Sociological Aspects)، ثقافتی پہلو Cultural Aspects، نفسیاتی پہلو Psychological Aspects، انفسی پہلو، ماورائی پہلو Transcendental Aspects، Intellectual Aspects اور Moral & Spiritual Aspect کی بھی تعلیم کے ذریعے نشوونما، ارتقاء و تکمیل ہو۔
انسان کی شخصیت بذاتِ خود ایک کائنات ہے۔ وجود انسان میں آسمان سے لے کر زمین تک اور فرش سے لے کر عرش تک خدا کی ساری کائنات ایک Single Whole unit کے طور پر بند ہے۔ ملائکہ کی حقیقت بھی انسان میں ہے۔۔۔ شیطان کی حقیقت بھی انسان میں ہے۔۔۔ عرش معلی کی حقیقت بھی انسان میں ہے۔۔۔ اس فرش اور تحت السریٰ کی حقیقت بھی انسان میں ہے۔ اس لئے کہ انسان ناصوتی بھی ہے۔۔۔ ملکوتی بھی ہے۔۔۔ لاہوتی بھی ہے۔۔۔ جبروتی بھی ہے۔۔۔ ہاہوتی بھی ہے۔ انسان کی شخصیت کا گوشہ کہیں مادہ سے ملتا ہے۔۔۔ کہیں روح سے ملتا ہے۔۔۔ کہیں عالم ملکوت سے ملتا ہے۔۔۔ کہیں ورائے عرش سے ملتا ہے۔ یہ وہی انسان ہے جو کبھی مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں چلتا ہے۔۔۔ اور کبھی معراج کی رات بیت المقدس پر ملائکہ و انبیاء کی امامت کرواتا ہے۔۔۔ یہ وہی انسان ہے جو کبھی سدرۃ المنتہیٰ سے گزر جاتا ہے۔۔۔ یہ وہی انسان ہے کہ جبرائیل تکتے رہ جاتے ہیں اور وہ اس سے آگے لامکان میں چلا جاتا ہے۔ الغرض انسان رشکِ ملائک ہے۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہر شے کا انعکاس (Reflection) انسان کی حقیقت میں ہے۔ اسلام کا مقصود انسانی شخصیت کے ہر ہر گوشے کی علم اور نظام تعلیم کے ذریعے متناسب نشوونما و ارتقاء ہے۔ اسی لئے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
لارهبانية فی الاسلام
’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے‘‘۔
(عجلونی، کشف الخفائ، ج2، ص510، رقم3154)
اگر کوئی چاہے کہ میںنے خدا کو منانا ہے اور دنیاوی فرائض چھوڑ کر غاروں میں چلا جائے تو یہ اسلام نہیں بلکہ مسیحیت ہے۔کسی صحابیہ نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرا شوہر بڑا نیک ہے، ساری رات اللہ کی عبادت کرتا ہے، دن کو روزے رکھتا ہے، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے شوہر کو طلب کرلیا اور فرمایا: ساری رات کھڑے ہوکر نفل پڑھنا، دن کو روزے رکھنا، یہ کمالِ انسانیت نہیں۔ تیری زوجہ کا، تیرے جسم کا اور رب کا تجھ پر حق ہے، لہذا ان حقوق کی ادائیگی کے لئے اپنی شخصیت اور اپنے نظام الاوقات کو تقسیم کرو۔
پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی شخصیت کے اندر جو مختلف گوشے رکھے ہیں، ان کی متناسب نشوونما (Proportionate developement) ہو تو یہ اسلامی تربیت ہے۔ انسانی شخصیت میں مادی گوشہ بڑھ جائے تب بھی غیر اسلامی اور اگر روحانی گوشہ بڑھ جائے، جس سے مادی ضرورتوں کی تکمیل دب جائے تو یہ بھی غیر اسلامی ہے۔ گویا اگر شخصیت کے سارے گوشے متناسب طریقے سے ترقی پائیں تو یہ ترتیب اسلامی نشوونما ہوگی، اسی کو نظام تعلیم کہتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے صحابہ کرامؓ کی، جو جماعت تیار کی وہ دن کو گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوتے اور باطل کو للکارتے تھے جبکہ رات کو مصلے پر قیام کرتے اور نفس کو پامال کرتے تھے۔ رات کو ان کا جہاد نفس کے خلاف شروع ہوجاتا جبکہ دن کو فروغ اسلام کے لئے جدوجہد کرتے نظر آتے۔
اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر حاصل کی گئی مملکت خداداد پاکستان میں وہ نظام تعلیم چاہئے جو ان کو سائنسدان، ٹیکنالوجی کا ماہر، ڈاکٹر، بیالوجسٹ، ایمبریالوجسٹ، اسٹانومسٹ بھی بنائے اور ان تمام سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ ان کو اخلاقی و روحانی اعتبار سے حقیقی مرد مومن بھی بنائے۔ پاکستان کے نظام تعلیم میں موجود خامیاں و خرابیاں درحقیقت عالمی سامراجی طاقتوں کی سازش ہے جس کے ذریعے وہ مسلمان قوم کو ان کی راہ اور منزل سے ہٹانے اور بہکانے میں مصروف عمل ہے۔ افسوس ہمارے نوجوان کو خبر نہ رہی۔
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ
ہمارے نوجوان طالب علم کی منزل بلنداور رفیع تھی۔ اس کا مقام یہ تھا کہ اس نے اپنے سیرت و کردار کی بدولت دنیا کی امامت کا فریضہ سرانجام دینا تھا مگر افسوس کہ آج نہ صرف نوجوان طالب علم بلکہ پوری قوم کی گردن میں غلامی کا طوق ڈال کر پوری قوم کا مستقبل تاریک کیا جارہا ہے۔ اس غلامی اور ذلت کے دور کے خاتمہ کے لئے قومی و اجتماعی سطح پر ہر شعبہ میں عظیم مقاصد کا تعین کرنا ہوگا، نظام تعلیم کو حقیقی مقصدیت کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا اور اس میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔
اجتماعی و معاشرتی مقصد
تعلیم کے مقاصد کی دوسری جہت کا تعلق اجتماعی معاشرتی زندگی سے ہے۔ علم جس طرح فرد میں انقلاب لاتا ہے اسی طرح اسلام کا نظام تعلیم معاشرے کو بھی ایک کردار عطا کرتا ہے۔ ہمارا موجودہ نظام تعلیم اجتماعی معاشرتی زندگی میں مثبت کردار پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری و خالی Character Less ہے، نتیجتاً اس کی پیداوار (Products) بھی Character less ہیں، کوئی منزل و مقصد نہیں۔ ڈگریاں لینا، نوکری اور روزگار کی تلاش کرنا یہ تو تعلیم کے ذریعے انسان کے صرف اور صرف مادی پہلو کی تکمیل ہے۔ باقی معاملات کہاں گئے؟ نیز موجودہ نظام تعلیم تو روزگار فراہم کرنے سے بھی قاصر نظر آتا ہے اور روزگار فراہمی کے تقاضے بھی پورے نہیں کررہا۔ 15/16 سال کی تعلیم کے بعد یہ نظام تعلیم تو بے روزگار افراد پیدا کرکے انہیں سڑکوں پر دھکے کھلارہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ان پڑھ، جاہل، غنڈے، بدمعاش اور MPA، MNA کی سفارش کے لئے ان کے دروازے پر بھکاری بناکر کھڑا کررہا ہے۔ جن کو انگوٹھا لگانا نہیں آتا ان جاہلوں کے سامنے انجینئرنگ اور ڈاکٹر کی ڈگری لے کر آج پاکستان کا گریجوایٹ نوجوان نوکری کی بھیک مانگنے کے لئے سوالی بن کر جاتا ہے۔ ایسے نظام سیاست پر لعنت ہے، اس سے بڑھ کر اس معاشرے میںعلم کی تضحیک و تذلیل کیا ہوگی۔
پاکستان کے آئین میں ممبران اسمبلی کی اہلیت و نااہلیت (Qualification & Disqualification) کے لئے آرٹیکل 62، 63 موجود ہے۔ یہ الگ بات کہ ان پر بھی عمل نہیں ہورہا، مفادات کی وجہ سے آپس میں مل جاتے ہیں مگر اس آرٹیکل اور آئین میں کہیں پر بھی ممبران پارلیمان کی اہلیت کے لئے تعلیم کی پابندی کا ذکر نہیں۔ ممبر پارلیمنٹ، MPA، MNA سینیٹر، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ بننے کے لئے ہمارا آئین تعلیمی معیار کو بیان ہی نہیں کرتا۔ اگر کسی دفتر کا چپڑاسی بھی مقرر ہونا ہو تو چپڑاسی کی تقرری کے لئے بھی کچھ نہ کچھ تعلیم کی شرط ہے مگر قانون ساز، سینیٹر اور ممبر پارلیمنٹ بننے کے لئے پرائمری پاس ہونے کی بھی شرط نہیں ہے بلکہ ان کے لئے شرط غنڈہ، بدمعاش، جاگیردار، سرمایہ دار اور اسمگلر ہونا ہے۔جس کے پاس یہ خوبیاں ہیں اگرچہ اسے علم کی الف ب بھی نہ آتی ہو، جاہل ہو مگر وہ ممبر پارلیمنٹ بن کر اسمبلی میں بیٹھنے کا اہل ہوتا ہے اور قوم کے مقدر سے کھیلنے کی اسے آزادی میسر ہوتی ہے۔
جس طرح نظام تعلیم اور علم کے ذریعے انسان کو انسان بنانا اور ایک مضبوط کردار دینا مقصود ہے اسی طرح معاشرے کو بھی ایک باوقار کردار رکھنے والا معاشرہ بنانا ہے۔جو نظام انسان کو اور معاشرے کو سیرت و کردار سے آشنا نہیں کرتا وہ نظام تعلیم اسلام میں مسترد ہے۔ جو نظام تعلیم وحدت نسل انسانی کا تصور نہ دے، اسلام ایسے نظام تعلیم کو رد کرتا ہے۔ یہ نظام تعلیم کا فقدان ہے کہ آج سندھی، پنجابی، بلوچ، پختون، پٹھان اور سرائیکی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اس لئے کہ ہم نے اپنی وحدت کو اسلام کے حوالے سے منسلک کرنے کی بجائے اپنی زبان سے منسلک کردیا یا جغرافیائی یونٹ کے ساتھ منسلک کردیا یا نسل کی وفاداری سے منسلک کردیا یا معاشی وفاداریوں کی گروہ بندیوں سے منسلک کردیا حالانکہ ان گروہ بندیوں کا قلع قمع تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے 14 سو سال قبل خطبہ حجۃ الوداع میں یہ فرماکر کردیا تھا کہ
فليس لعربی علی عجمي فضل ولا لعجمي علی عربي ولا لاسود علی ابيض ولا لابيض علی اسود فضل الا بالتقوی
کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی برتری نہیں اور نہ ہی کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر برتری حاصل ہے۔ ساری برتریاں، تقویٰ، کردار و عمل پر مبنی ہیں۔
(طبرانی، المعجم الکبير، 18: 12، رقم:16)
ہم نے اسلام کی عطا کردہ شناخت، امتیاز اور وحدت کی بنیادوں کے تصورات کو بھلایا اور اس کے بعد ہم چھوٹی چھوٹی محدود وفاداریوں میں تقسیم اور منتشر ہوگئے۔ یہ نظام تعلیم کا فقدان ہے کہ اس سے وہ سوچ پیدا نہیں ہورہی جو قوم کو ایک قوم بناسکے اور ایک وحدت میں منسلک کرسکے۔ نظام تعلیم معاشرے کو اس کی شناخت و پہچان عطا کرتا ہے۔ بطور مسلمان ہمارا نظام تعلیم وہی ہوگا جو ہماری شناخت و پہچان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور ان کی اتباع کو قرار دے گا۔
ہماری بقاء مصطفوی نظام میں ہے
اتباع و اطاعت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت اور ان کے عطا کردہ نظام کے سوا کسی اور نظام کو بطور نظام قبول کرنے کی گنجائش نہ رہے۔ آج مختلف ازم کی بات ہوتی ہے، اسلام کے ہوتے ہوئے ہم مختلف نظام اور فلاسفی کو اپنانے کی بات کرتے ہیں، کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ معاذ اللہ اسلام اور رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کردہ نظام اور قرآن کا دیا ہوا فلسفہ زندگی Outdated ہوگیا یا قابل عمل Workableنہیں رہا یا ہماری جدید نئی نسل اور دور حاضر میں ہونے والی ترقی کا ساتھ دینے کے قابل نہ رہا۔۔۔؟
افسوس اگر اس تصور کے پیش نظر ہم نے اسلام کو ایک طرف رکھ دیا اور دیگر نظاموں کو قبول کرلیا تو گویا ہم نے تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا پٹا گلے سے اتار کر بالواسطہ نبوت و رسالت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بغاوت کردی۔ اگر ہم اتباعِ رسالت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی وفاداری کو ایک جگہ مرکوز رکھتے تو پھر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جو دین ہمیں دے گئے اس کے بعد کسی اور نظام کو آزمانے اور جانچنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس لئے کہ اسلام کا دیا ہوا نظام ہی جدید نظام ہے، جو ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ یہ اتنا عظیم نظام ہے کہ دنیا کے سارے فلسفے اور علم کی دنیا کے جملہ ارتقاء آج تک عظمتِ فکرِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام تک نہیں پہنچ پائے بلکہ راستے میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ جب ہر انسانی علم اور فلسفہ اپنے کمال پر پہنچے گا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ نظام کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوجائے گا۔ افسوس! آج کی نوجوان نسل کو بتایا نہیں گیا کہ آپ کا نظام کیا ہے۔۔۔؟ مرکزِ وفاداری کیا ہے۔۔۔؟ اگر بتایا گیا تو اس کی حقیقت اور حسن سے آشنا نہیں کرایا گیا کہ آیا یہ آج کی ضرورت کو پورا کرتا ہے کہ نہیں۔
دنیا میں سب سے پہلے باقاعدہ تحریری آئین حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میثاق مدینہ کی صورت میں عطا فرمایا۔ دنیا کی کوئی ریاست باقاعدہ کسی آئین پر قائم نہ ہوئی تھی۔ سب سے پہلی ریاست جو باقاعدہ ایک آئین پر قائم ہوئی وہ ریاست مدینہ ہے۔
(تفصیل کے لئے شیخ الاسلام کی تصنیف ’’میثاق مدینہ کا آئینی تجزیہ‘‘ ملاحظہ فرمائیں)
آج انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے اور مغرب اس کا بانی بن کر سامنے آتا ہے لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو مغربی دنیا میں انسانی حقوق کی تاریخ دو اور تین صدیوں سے آگے نہیں جاتی۔ انسانی حقوق کی بحالی کی جس تاریخ اور کاوش پر اقوام متحدہ اور مغرب فخر کررہا ہے، یہ تمام حجۃ الوداع کے خطبہ میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت عطا فرمادیئے تھے، جب کسی کو اس کی خبر ہی نہ تھی۔
(تفصیل کے لئے شیخ الاسلام کی تصانیف ’’اسلام میں انسانی حقوق‘‘ اور ’’مقدمہ سیرت الرسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ (دو جلدیں) ملاحظہ فرمائیں)
ہماری بدبختی ہے کہ ہمیں اپنی منزل اور اپنے سرچشمے سے بھی کاٹ دیا گیا۔ اگر آج ہمارا نظام تعلیم اسلام کے تصور علم کے فیض سے سیراب ہوا ہوتا تو ہمیں یہ خبر ہوتی کہ آقائے دو جہاں صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو خطبہ حجۃ الوداع کی شکل میں ایک ایسا New World order عطا فرمایا تھا کہ جس کے بعد کسی ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اس کے ذریعے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارے استحصالی اور ظالمانہ اصول اور قوانین کے خاتمے کا اعلان کیا اور ہر ایک طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اُن کے حقوق بہم پہنچانے کو لازمی قرار دیا۔
(تفصیل کے لئے شیخ الاسلام کی تصانیف ’’اسلام میں انسانی حقوق‘‘ اور ’’مقدمہ سیرت الرسول‘ؐ‘ ملاحظہ فرمائیں)
آج امن عالم کے نام پر غریب اقوام کا امن اور جینے کا حق ان سے چھینا جارہا ہے۔ عالمی دہشت گردی کے ذریعے غریب اقوام کی ثقافت چھینی جارہی ہے، نظریہ چھینا جارہا ہے، دین و مذہب، سیاسی و اقتصادی آزادی چھینی جارہی ہے، کیا اس کا نام امن عالم کا قیام ہے۔۔۔؟ امن عالم کے قیام کے حقیقی اقدامات تو وہ تھے جس کا اعلان آقا علیہ السلام نے یہ کہہ کر فرمایا:
يا ايها الناس ان دماوکم واموالکم واعراضکم عليکم حرام کحرمة يومکم هذا في بلدکم هذا في شهرکم هذا
(صحيح مسلم کتاب القسامة، ج3، ص1306، رقم1678)
یعنی انسانوں کا خون، ان کی جان، ان کا مال، عزت و آبرو اس طرح مقدس کررہا ہوں جیسے خدا کا گھر کعبہ مقدس ہے۔ جس طرح ذوالحجہ کا مہینہ اور ایام حج مقدس ہیں۔ گویا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالمی انسانی مساوات کا نظام دیا۔۔۔ استحصالی نظام کو ختم کیا۔۔۔ زیر دست اور افلاس زدہ انسانیت کے حقوق متعین کئے۔۔۔ غلامی کے خاتمے کی بنیاد رکھی۔۔۔ معاشرتی انصاف کو فروغ دیا۔۔۔ قیدیوں کے قتل کے قانون کو ختم کرکے قیدیوں کے حقوق مقرر فرمائے۔۔۔ معاشی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کا قلع قمع کیا۔ الغرض ہر جہت سے جدید نظام کی بنیاد رکھی۔
علم، مصطفوی انقلاب کی بنیاد
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عظیم انقلاب کی بنیاد علم پر قائم کی۔ جب غزوہ بدر کے موقع پر 70 کافر قیدی ہوئے تو 4 ہزار درہم ان کی رہائی کے لئے رقم مختص کی گئی کہ جو شخص 4ہزار درہم دے، اس کو آزاد کردیا جائے گا۔ خواہ مکہ کی ریاست ادا کردے یا وہ خود اپنے پاس سے ادا کردے۔ ریاست مدینہ اس وقت مالی لحاظ سے کمزور تھی، وسائل کی ضرورت تھی، 70 قیدی تھے، 4ہزار درہم فی کس سے ایک معقول رقم آتی تھی مگر اتنی معقول رقم کے مقابلے میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم اور تعلیم کی اہمیت واضح کرنے کے لئے اعلان فرمایا کہ 4 ہزار درہم ہر جنگی قیدی کی رہائی کا زر فدیہ ہے مگر جو جنگی قیدی میری ریاست مدینہ کے دس دس بچوں کو تعلیم دے دے، اُسے بغیر زر فدیہ آزاد کردیا جائے گا۔
(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج2، ص22، رقم3154)
یہ تعلیمی انقلاب کی تحریک تھی جس کا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آغاز فرمایا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تو اُمّی قوم میں ہوئی مگر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہالت کے اندھیرے دور فرماتے ہوئے علم کے نور سے معاشرے کو منور فرمادیا۔
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِی الْاُمِّيّنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰـتِهِ وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَق وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍ
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول( صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔
(الجمعة:2)
عرب اپنے ان پڑھ اور پڑھے لکھے نہ ہونے پر فخر کرتے تھے اور لکھنا پڑھنا جرم سمجھتے تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اُمّی قوم میں ایسا تعلیمی انقلاب بپا کردیا کہ ابھی ایک صدی بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ عالم اسلام شرق سے غرب تک ساری کائنات انسانی میں علم کا امام بن گیا۔ 1000 سال تک یہ کیفیت رہی کہ سپین، قرطبہ، غرناطہ، بغداد، مصر، دمشق، نیشاپور الغرض تمام عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں ہمہ جہتی تعلیم کے حصول کے لئے شرق سے غرب تک کے لوگ آتے۔
اتنی ترقی ہوئی کہ بالآخر آج کے مغربی رائٹرز، سکالرز، مورخین بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اس امر میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کی سائنسی فکر پر اسلامی سائنسی فکر کا گہرا اثر ہوا۔ مغرب کی اس علمی نشاۃ ثانیہ پر دیگر کئی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ مگر بنیادی طور پر سب سے گہرا اثر سپین سے آیا۔ پھر اٹلی اور فلسطین کی جانب سے اثرات مرتب ہوئے۔ مغربی ممالک کے لوگ مسلم ثقافت اور سائنسی اسلوب سے روشناس ہوئے۔ بعد ازاں سارا وسطی اور مغربی یورپ سائنسی ثقافتی تہذیبی اور فنی ترقی کی منزلوں پر گامزن ہوا اور یہ سب اسلام، اسلام کے تصور علم اور نظام تعلیم کا فیض تھا۔
(تفصیل کے لئے شیخ الاسلام کی تصنیف’’مقدمہ سیرت الرسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ ملاحظہ فرمائیں)
بدقسمتی کہ ہم نے وہ راہ، کردار، بنیاد اور منزل چھوڑ دی۔ نتیجتاً وہ علم جو اسلام کی سرزمین سے مغربی دنیا میں منتقل ہوا وہاں فروغ پانے لگ گیا اور ہم رفتہ رفتہ زوال پذیر ہوکر آج اس مقام کو جاپہنچے کہ جدید علوم کے حصول کے لئے انہی ممالک کا سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ آج ہمارے اندر نہ وہ جذبہ رہا، نہ وہ خواہش رہی اور نہ مستقبل کو اپنے قبضے میں لینے کی لگن رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج حکمران اور لیڈر نوجوان نسل کو بے مقصد وبے شعور زندگی اور تاریک مستقبل کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ انہیں ایک پرعزم اور ایک عظیم مستقبل کے لئے وہ نظام نہیں دیا جارہا جو عظیم مستقبل کا ضامن ہو۔ اسلامی نظام تعلیم معاشرے میں جہاں سائنسی ترقی، ماحول کی تسخیر اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی طرف دعوت دیتا ہے وہاں انسانوں کے دلوں کی تسخیر، اخلاقیات اور روحانیات کی ترقی بھی چاہتا ہے۔ اسلام میں علم اور نظام تعلیم افراد کو روحانی الذہن بنانا چاہتا ہے کہ ان کے اندر اخلاقیات و روحانیت موجود ہو۔ افسوس ہمارے موجودہ نظام تعلیم سے اخلاقیات، روحانیت کی جڑیں کٹ گئیں اور ہمارے علم اور نظام تعلیم میں اخلاق اور روحانیت کی کوئی بنیاد باقی نہ رہی۔
اسلام کا نظام علم اور اسلام کا نظام تعلیم ایتائے حقوق کا جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ ہمارا موجودہ نظام تعلیم حقوق کے مطالبہ پر مبنی ہے اور فرائض کی ادائیگی کا تصور اس میں سے ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ نتیجتاً علم وہ شعور زندگی نہیں دے رہا جس شعور کے ساتھ معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔
علم جدوجہد کی بنیادمہیا کرتا ہے کہ اس معاشرہ میں موجود طبقات کس کے لئے زندہ رہیں گے اور کس کے لئے مریں گے؟ صرف کمائی کے لئے پڑھنا، مقصود علم نہیں ہے۔ علم اور نظام تعلیم کا یہ مقصد ہے کہ ساری معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔۔۔ ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے گا۔۔۔ ظلم کو مٹایا جائے گا۔۔۔ استحصال کو مٹایا جائے گا۔۔۔ جبرو بربریت کو مٹایا جائے گا۔۔۔حقوق کی بحالی ہوگی۔۔۔ اسلام کی سربلندی ہوگی۔۔۔ معاشرے کے وہ سارے ناپاک عزائم جو ہم سے اسلام اور اسلامی کردار کو چھین رہے ہیں، ان کے خلاف صف آراء ہوکر علمی و فکری جنگ کرنا ہوگی۔ یہ غیر مسلح انقلابی جنگ اس وقت تک جب تک ظالم سامراجی طاقتیں خس و خاشاک کی طرح بہہ نہیں جاتیں۔
ان مقاصد کو ذہن میں رکھ کر طلبہ و طالبات کو علم کے بنیادی اہداف مقرر کرنا ہوں گے۔ اس صورتِ حال میں نظام تعلیم کو از سر نو استوار کرنا ناگزیر ہے، اس لئے کہ یہ غلام پیدا کرنے والا نظام ہے۔۔۔ یہ نظام تعلیم نہیں بلکہ نظام جہالت ہے۔۔۔ یہ نظام ہدایت نہیں بلکہ نظام ضلالت ہے۔ ہمیں وہ نظام چاہئے جو ہمیں اس ملک کی تخلیقی بنیاد سے آگاہ کرسکے۔ ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو جری، جرات مند اور آزاد قوم کو تشکیل دے سکے۔ وہ آزاد قوم کہ جس کی تقدیر عالمی طاقتوں کے مرہون منت نہ ہو بلکہ گنبد خضریٰ کے سائے میں لکھی جائے۔ جس کا قبلہ کعبۃ اللہ ہو۔۔۔ جس کا نظام آئینِ قرآن ہو۔۔۔ جس کا نظام سنتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو۔۔۔ جو اللہ اور اسکے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی اور کی بندگی اور غلامی و وفاداری اختیار نہ کرے۔ ایسے مردان حر جس نظام سے پیدا ہوں گے، وہی نظام تعلیم اسلام کا ہوگا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنی منزل اور شعورِ مقصد سے آشنا کردے تاکہ ہمارا جینا مرنا اللہ کے لئے ہوجائے۔ اسی کی تلقین ہمیں صحیفہ انقلاب میں ان الفاظ کے ذریعے کی گئی ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِيْنَ
’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔
(الانعام: 162)
تبصرہ