دعاؤں کی قبولیت کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
وسیلہ اہم ہے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےعقیدہ پر مسلمان مضبوطی کے ساتھ عمل کریں
دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
اپنا رشتہ مضبوط کرنے کی تلقین
منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے زیراہتمام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا
درس حدیث
حیدرآباد (انڈیا)۔ بانی وسرپرست اعلیٰ منہاج القرآن انٹرنیشنل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ سے حاجت طلب کرنا، آپ کی بارگاہ میں استغاثہ کرنا آپ کی زندگی میں جس طرح جاری تھا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پر حاجت بیان کرنا اور گناہوں کی معافی کے لئے وسیلہ سے طلب کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین اور سرکردہ ائمہ حدیث کے عمل سے ثابت ہے۔ شیخ الاسلام آج رات قلی قطب شاہ اسٹیڈیم پر منہاج القرآن انڈیا کے زیراہتمام 4 روزہ درس حدیث کے دوسرے دن (یکم مارچ 2012ء) کو سینکڑوں علماء و ہزاروں سامعین سے خطاب کر رہے تھے۔ اجلاس کی سرپرستی مولانا سید کاظم پاشا قادری الموسوی سجادہ نشین خانقاہ موسویہ نے کی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے احادیث کی کتب صحاح ستہ میں سے حصہ عقائد کی منتخب احادیث کو موضوع کلام بنایا اور تقریباً 3:15 گھنٹے تک مسلسل قرآن و حدیث کے حوالوں سے خطاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعاؤں کی قبولیت کیلئے مجرب نسخہ خود سکھلایا ہے۔ امام ترمذی نے اسے لکھا ہے کہ اے اللہ میں تیرے حضور میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اس طرح سے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت طلب کرنے کے ساتھ یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ندا کرنے کی بھی ہدایت دی گئی۔ امام ترمذی کے علاوہ ابن ماجہ اور دیگر حدیث کی کتب میں اس کا ذکر موجود ہے۔ یہ حدیث خبر واحد نہیں ہے کہ جس پر اعتراض کیا جا سکے۔ اصحاب سنن، صحاح ستہ کے ہر ایک ائمہ حدیث نے اس کو صحیح کہا ہے۔
امام نووی کتاب الاذکار میں حدیث الاستغاثہ بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری اور دیگر ائمہ حدیث اسے بیان کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی حاجت در پیش ہوتو دو رکعت نماز نفل پڑھی جائے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کیا جائے۔ احادیث کتب میں اس بات کا تذکرہ موجود ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اس ارشاد پاک کے پیش نظر ایک نابینا اعرابی نے مذکورہ طریقہ کار کے تحت دعا کی تو اسے فوری بینائی مل گئی۔ علامہ ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کی تائید کی ہے۔ تمام ائمہ کرام کا اس حدیث پر اجماع ہے۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ علامہ ابن تیمیہ کے نظریہ کے حامل علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحفۃ الذاکرین میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ یہاں تک ہندوستان میں اہل حدیث کے عالم عبدالرحمن مبارک پوری نے اپنی کتاب میں تقریباً ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل اس حدیث سے متعلق تفصیل تحریر کی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاجت طلب کرنا اور مدد مانگنے کا معاملہ، ابتدائی دور اسلام یعنی متقدمین سے متاخرین تک کسی میں اختلاف نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ آج بعض لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اعمال صالحہ سے توسل جائز ہے، ذات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اولیاء وصالحین سے جائز نہیں۔ اس طرح یہ انکار کرنے والے 1300 برس کے اجماع امت کو رد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمل صالح خود کیا ہیں؟ کوئی بھی عمل حکم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمل صالح بن جاتاہے، اگر امر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہو تو عمل خود بخود رد ہو جاتا ہے۔ اس طرح عمل بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے عمل صالح بن رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات سے ہٹ کر ہو تو وہ خود بدعت ہے۔
شیخ الاسلام نے کتب احادیث کے حوالہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کا واقعہ سنایا اور کہا کہ ایک شخص امیر المومنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اپنی حاجت بیان کرنے اور ملاقات کا خواہشمند تھا لیکن کئی دن تک وہ ملاقات نہ کرسکا۔ جب بھی وہ ملاقات کیلئے جاتا دربان اسے واپس کر دیتا۔ اس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پاک کے مطابق نفل پڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں استغاثہ پیش کیا۔ اس کے بعد جب وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو اسی دربان نے اسے پکڑ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بٹھا دیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے وہیں اس کی مشکل حل کر دی اور فرمایا کہ اور کوئی حاجت ہو تو بیان کر، یہی نہیں بلکہ آئندہ بھی کوئی حاجت ہو تو میرے پاس آنا کیونکہ تمہارا آنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے ہے۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سورۃ نساء کی آیت کا حوالہ دیا اور کہا کہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کریں تو وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری دیں اور اللہ سے معافی طلب کریں اور حضور انہیں معاف کردیں تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پائیں گے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ یہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں جاری تھا اور قیامت تک اس آیت کا حکم جاری رہے گا۔ امام بیہقی کے شیخ امام ابوعبدالرحمن سلمی اور امام ابو القاسم قشیری نے تقریباً 1100 برس قبل اس آیت مبارکہ کی بہترین تشریح فرمائی۔ علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد امام حافظ ابن کثیر نے اس آیت مبارکہ کی تشریح کی۔ حافظ ابن کثیر کی تفسیر ابھی بھی حرمین شریفین اور عالم عرب میں معتبر ترین ہے۔ انہوں نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کےگناہگاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اگر گناہ کر بیٹھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچ جائیں، بارگاہ میں پہنچنے کا حکم روز قیامت تک ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ انور پر حاضر ہوا اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے لگا، اس نے استغاثہ کرتے ہوئے جو اشعار پڑھے وہ صدیوں سے روزہ مبارک کی جالیوں پر آج بھی کندی ہیں۔ اعرابی نے روتے ہوئے جب استغاثہ پیش کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے معاف کر دیا۔ اس واقعہ سے حافظ ابن کثیر نے بھی نہ اختلاف کیا اور نہ مختلف رائے دی لیکن آج کے بعض تنخواہ یافتہ محقق اسے جھوٹا قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ان کے نزدیک معیار قرآن و حدیث ائمہ محدثین نہیں ہیں بلکہ ان کی اپنی پسند ان کا معیار ہے۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ مروان بن حکم نے دیکھا کہ ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر گر گیا ہے اور رو رہا ہے اس پر مروان نے اس شخص کو اٹھایا اور کہا کہ کیا کر رہے ہو، یہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس پر وہ شخص پلٹا تو معلوم ہوا کہ وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم تھے۔ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے مروان کو جواب دیا کہ مروان اپنی زبان سنبھال کر بات کر، میں بارگاہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوں، میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ہوں۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے عقیدہ کا اصول قائم ہوگیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں اور جو کہے گا کہ مر کر مٹی، پتھر ہوگئے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقیدہ سے ہٹ گیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے حدیث کے تین ائمہ کرام کا واقعہ بھی سنایا کہ وہ تین دن بھوکے پیاسے رہے اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے بھوکے رہنے کی شکایت کی جس پر فوری انہیں بہترین کھانا نصیب ہو گیا۔ دیکھا کہ ایک سید زادے نے ان کے لئے کھانا لایا ہے اور انہوں نے فرمایا کہ حالت رویا میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پر آپ کیلئے کھانا لایا ہوں۔
شیخ الاسلام نے شیراز کے امام ابو عبداللہ کا واقعہ سنایا، امام ابو عبداللہ اپنے فرزند کے ساتھ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضر ہوئے، فرزند نے کہا بھوکا ہوں اور انہوں نے کہا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج ہم آپکے مہمان ہیں اسی دوران انکی آنکھ لگ گئی۔ اچانک بیدار ہوگئے اور کبھی ہسنے لگے تو کبھی رونے لگے۔ بچے کے دریافت کرنے پر کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور درہم عنایت کرگئے۔ آنکھ کھلی تو درہم ہاتھ میں موجود تھے۔ اس کے ذریعہ مدینہ شریف سے شیراز واپسی تک اخراجات مکمل ہوئے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کے سلسلہ میں واقعہ سنایا اور کہا کہ ایک مرتبہ اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوئے اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم سے عرض کیا تو انہوں نے کہا کہ جاؤ اور قبر انور اور آسمان کے درمیان میں کوئی پردہ نہ ہو اس طرح سے روضہ میں ایک سوراخ کرو، صحابہ رضی اللہ عنہم نے روضہ میں سوراخ کیا تو ایسی بارش ہوئی کہ مدینہ منورہ سرسبز و شاداب ہوگیا۔ جانور فربہ ہوگئے، یہاں تک کہ ان کے پیٹ پھٹنے لگے۔ مدینہ منورہ کی تاریخ میں اسے پیٹ پھٹنے کا سال قرار دیا گیا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ قبر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توسل کرنا، ام المومنین کا حکم ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع ہے۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود کئی موقعوں پر اپنی زلف اور اپنے ناخن تراش کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تقسیم کیا کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاس عمل کا مقصد یہ ہے کہ موئے مبارک سے توسل قائم ہو جائے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ جو عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور تبع تابعین کا تھا، مسلمان اسی پر عمل کریں اور مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقیدہ اور عمل سے ہٹ جانا خود بدعت اور فتنہ ہے۔
مولانا سید کاظم پاشا قادری الموسوی نے اپنے خطاب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی دنیا بھر میں علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی درازی عمر کیلئے دعا کی۔ مولانا ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی نے خانوادہ اشرفیہ کی جانب سے شیخ الاسلام کی بھرپور تائید کا اعلان کیا۔ شہ نشین پر علماء، مشائخ کی بڑ ی تعداد موجود تھی۔ جس میں قابل ذکر مولانا سید غوث محی الدین قادری، مولانا قاضی سید اعظم علی صوفی، مولانا حبیب موسیٰ الحسینی اور دوسرے موجود تھے۔ کنوینئر جلسہ محمد غوث کارپوریٹر و ڈپٹی فلور لیڈر مجلس بلدی پارٹی حیدر آباد کی نگرانی میں قلی قطب شاہ اسٹیڈیم کے جلسہ کے انتظامات کئے گئے۔ مولانا سید آل رسول قادری حسنین پاشا، حطیم سیٹھ، احتشام قادری، محمد توفیق، مصطفیٰ علی مظفر کے علاوہ منہاج القرآن کے کارکنوں نے انتظامات میں حصہ لیا۔ مولانا حافظ وقاری محمد رضوان قریشی امام مکہ مسجد کی قرات کلام پاک اور منہاج نعت کونسل کی جانب سے حبیب محمود الحسینی نے دف پر نعت پیش کی۔ حافظ محمد خان قادری ارشد حبیبی صدر سٹی منہا ج القرآن نے کاروائی چلائی اور احتشام قادری نے شکریہ ادا کیا۔
تبصرہ