حیدرآباد انڈیا میں دورہ حدیث - حضور کے توسل سے دعا، قرآن و حدیث سے ثابت (پہلا روز)

منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا حیدر آباد دکن کے زیراہتمام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا چار روزہ دورہ حدیث 29 فروری 2012ء کو شروع ہوا۔ جس میں ہزاروں علماء و مشائخ اور اہل علم لوگوں نے شرکت کی۔ حیدرآباد دکن میں قلی قطب شاہ اسٹیڈیم میں منہاج القرآن انڈیا کے زیراہتمام چار روزہ دروہ حدیث کی خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ پروگرام کی صدارت مولانا سید محمد اولیاء حسینی قادری پاشا نے کی جبکہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد خواجہ شریف مہمان خصوصی تھے۔

منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے ڈائریکٹر مولانا حبیب احمد الحسینی نے شیخ الاسلام کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم اس شخصیت کے ساتھ موجود ہیں، جو دنیا بھر میں مختلف موضوعات پر 6 ہزار سے زائد لیکچرز دے چکے ہیں۔ آپ کی تصانیف کی تعداد ہزار سے زائد ہیں، جس میں 400 سے زائد طبع ہو چکی ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسلام کا عالمگیر پیغام دنیا میں پھیلانے کے لیے منہاج القرآن انٹرنیشنل کا نیٹ ورک قائم کیا، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں آپ کی آواز اور شخصیت ایک جانی پہچانی اور اتھارٹی بن چکی ہے۔

Click to Read or Download اس موقع پر مولانا اولیاء حسینی مرتضیٰ پاشا نے شیخ الاسلام پر ہونے والے اعتراضات پر لکھی گئی عبدالستار منہاجین کی پہلی اور منفرد تصنیف اور ماہنامہ منہاج القرآن کا قائد نمبر (فروری 2012ء) کا اجراء کیا۔ جس میں شیخ الاسلام کی حیات و خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور 2012ء میں ان کے اہم ترین عالمی پروگراموں کی تصویری جھلکیاں شامل ہیں۔ دورہ حدیث کا یہ عظیم الشان اجتماع کنوینئر جلسہ محمد غوث کارپوریٹر و ڈپٹی فلور لیڈر مجلس بلدی پارٹی حیدرآباد کی نگرانی میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر سید آل رسول قادری حسنین پاشا، احتشام قادری، محمد توفیق، مصطفیٰ علی مظفر کے علاوہ منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے قائدین بھی اسٹیج پر موجود تھے۔

پروگرام کا آغاز شب 9 بجے تلاوت قرآن پاک اور نعت مبارکہ سے ہوا۔ مولانا حافظ و قاری ذبیح اللہ بیگ نے تلاوت قرآن پاک کا شرف حاصل کیا جبکہ قاری احسن علی احتشام نے نعت مبارکہ پڑھی۔ حافظ محمد خان قادری ارشد حبیبی صدر سٹی منہاج القرآن نے نقابت کے فرائض سر انجام دیئے۔

پروگرام میں سینکڑوں علماء و مشائخ سمیت ہزاروں شرکاء نے شرکت کی، اسٹیڈیم میں جگہ کم پڑ جانے کے بعد اسٹیڈیم کے باہر ہنگامی طور پر بڑی سکرینیں لگائی گئیں، جس کے ذریعے لوگوں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خطاب ملاحظہ کیا۔

خطاب شیخ الاسلام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دورہ حدیث کے لیے صحاح ستہ کو منتخب کیا۔ آپ نے متعدد احادیث صحیحہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وسیلہ یعنی مدد مانگنا انبیاء کرام، صحابہ کرام اور صالحین کی سنت ہے۔ اس عقیدہ کا حوالہ قرآنی نصوص ہیں۔ آپ نے کہا کہ جس عقیدہ کی نص قرآن و حدیث میں موجود نہیں، اس کی بنیاد پر عقیدہ تبدیل کرنا فتنہ اور بدعت ہے۔ یہ عقیدہ اوائل اسلام سے موجود ہے۔ جس میں بعد ازاں تبدیلی آ گئی لیکن سوائے چند ایک کے تمام امت اور علمائے امت اس عقیدہ پر متفق ہیں۔ چودہ سو سال سے صلحاء امت کا یہی عقیدہ ہے۔ آپ نے صحیح بخاری کی احادیث نمبر 1009 اور 1010 کا حوالہ دیا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ قرآن و حدیث سے متعدد حوالے دیتے ہوئے کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اپنی خطا کی معافی کے لیے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ اسی طرح ایک جنگ میں جب یہودی پسپا ہو رہے تھے تو اپنی مقدس کتاب تورات کھول کر اس میں موجود اسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی انگلی رکھ کر دعا کرتے تو وہ جنگ فتح میں تبدیل ہو جاتی۔ آپ نے بخاری شریف کے شارح امام ابن بطال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک صرف 5 برس تھی، تو اس وقت مکہ میں شدید قحط پڑا۔ لوگ پانی نہ ہونے کی وجہ سے مرنے لگے، اس وقت لوگوں نے اپنے سردار عبدالمطلب سے کہا کہ وہ بارش کی دعا کریں، تو حضرت عبدالمطلب کا ہاتھ پکڑا اور اس کو صحن کعبہ میں آئے۔ آپ کی پشت مبارک کعبہ کی دیوار کو لگا کر کھڑا کر دیا گیا اور ننھے شہزادہ سے کہا کہ وہ آج دعا کریں کہ قحط السالی ختم ہو جائے۔ پھر کیا تھا کہ ننھے شہزادے نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ مکہ کی وادیاں بہنے لگیں۔

اس طرح بخاری شریف کی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں بارش نہ ہونے سے لوگ پریشان تھے، تو خلیفہ دوم سیدنا عمر ابن خطاب نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت ابوالفضل عباس کے وسیلہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہم تیرے حضور میں اپنے نبی مکرم کو وسیلہ بنایا کرتے تھے اب ہم تیرے محبوب کے چچا کو وسیلہ پیش کر رہے ہیں، تو اسے قبول فرما۔ اس دعا کے فوری بعد بارش شروع ہو جاتی تھی۔

آپ نے کہا کہ عقیدہ توسل اور وسیلہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ عقیدہ اصل دین ہے۔ یہ عقیدہ حضرت عمر فاروق کا ہے۔ یہ عقیدہ جمیع صحابہ کرام کا ہے۔ یہ عقیدہ تمام سلف صالحین کا ہے اور اسی عقیدہ کا پرچار کرنے کی ضرورت ہے۔ امام بخاری اس عقیدے پر اتنے راسخ تھے کہ آج تک جتنی صحیح بخاری کی شروح لکھی گئیں تو کسی ایک شارح حدیث نے بھی اس عقیدہ کو غلط قرار نہیں دیا۔ کسی ایک شارح حدیث نے عقیدہ توسیل کو بدعت قرار نہیں دیا۔ کسی ایک شارح حدیث نے اس عقیدہ کو اپنی کتب سے خارج نہیں کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 12 سو سال پہلے لکھی گئی کتاب الشرعیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کتاب شریعہ میں بھی یہی عقیدہ ہے، جس کا آج حرمین شریفین سمیت سارے عرب و عجم میں درس دیا جاتا ہے۔

آپ نے کہا کہ علامہ ابن تیمیہ کے نظریہ کے حامل محدث علامہ محمد بن علی شوکانی لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت میں موجود ہیں اور پڑھے جانے والے درود کی خود سماعت کرتے ہیں۔ جس وقت حضور دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے تو اس وقت بھی آپ کے وسیلہ جلیلہ سے دعا قبول ہوتی تھی۔ علامہ ابن تیمیہ اس بات پر متفق ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت بھی نبی تھے جب حضرت آدم علیہ السلام پانی و مٹی کے مرحلہ میں تھے۔ زمین و آسمان کا وجود تک نہ تھا۔ عرش کے ستونوں پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا تھا، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی محمد درج تھا۔

شیخ الاسلام نے اپنے پیغام میں کہا کہ لوگو آج امت میں عقیدہ صحیحہ کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ پروگرام کا اختتام دعا سے ہوا، اس موقع پر حافظ محمد خان قادری، ارشد حبیبی صدر سٹی منہاج القرآن نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

تبصرہ