شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ترکی میں 'انٹرنیشنل پیس کانفرنس' میں شرکت

افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے حوالے سے 3 روزہ عالمی کانفرنس 30 نومبر سے 2 دسمبر 2011ء تک ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہوئی، کانفرنس کا موضوع "افغانستان کا پرامن مستقبل" تھا۔ منتظمین کی خصوصی دعوت پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی مہمان خصوصی کے طور پر کانفرنس میں شریک ہوئے۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل Ekmeleddin Ihsanoglu، الازھر یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر اسامہ العبد، مفتی آف بوسنیا شیخ ڈاکٹر مصطفیٰ کرک، شیخ ہاشم کابانی اور دیگر معزز اسکالرز بھی کانفرنس کے معزز مہمانوں میں شامل تھے۔ پاکستان سے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی قائدین ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سینئر نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض سمیت منہاج القرآن انٹرنیشنل یوکے رہنماء شاہد مرسلین اور فیصل مرزا نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔

کانفرنس کو سنٹر فار ریلیجینز، ڈپلومیسی اینڈ کنفلیکٹ ریزولیشن ایٹ جورج میسن یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی، انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹ سٹڈیز مارمارا یونیورسٹی استنبول نے مشترکہ طور پر کانفرنس منعقد کی تھی۔ کانفرنس کے معزز مہمانوں میں متعدد افغان اسکالرز اور شیوخ کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک سے تھنک ٹینکس، اسکالرز اور معززین نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ پہلا موقع تھا جب افغانستان سے 120 آئمہ، اسکالرز اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے ایک ساتھ شرکت کی۔ جنہوں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سمیت دنیائے اسلام کے تمام جید اسکالرز، شیوخ اور رہنماؤں سے براہ راست بات چیت کی۔

کانفرنس میں تمام رہنماؤں کی بات چیت اور افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ڈائیلاگ پر مختلف سیشنز ہوئے، جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نشسست خصوصی اہمیت کی حامل رہی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گھنٹوں پر مشتمل اپنی گفتگو میں افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے مؤثر حکمت عملی پیش کی، جسے تمام شرکاء نشست نے بے حد سراہا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ افغانستان میں افغان عوام کے عملی شمولیت کے بغیر قیام امن ممکن نہیں۔ محض کسی بیرونی طاقت یا قوت کے بل بوتے پر افغانستان میں کبھی امن قائم نہیں ہوگا بلکہ اس سے افغانستان میں فرقہ وارانہ جذبات اور شدت پسندی کو مزید تقویت ملے گی۔ آپ نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کی معاشی ترقی میں افغانستان کا نمایاں اور اہم مقام ہے، جس کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مقام اس وقت ہی حاصل کیا جاسکتا ہے جب تک افغانستان میں مکمل قیام امن نہیں ہوجاتا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ افغان لوگ پرامن قوم ہیں، جس نے ہمیشہ علم و عمل سے دنیا میں اپنا نمایاں مقام بنایا، مولانا رومی جیسے نابغہ روزگار اور صوفی بزرگ اس کی عملی مثال ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی نے افغانستان میں انتہائی منفی اثر چھوڑا، جس کی وجہ سے ایک پرامن قوم انتہاء پسندی کا شکار ہوگئی۔ آج بھی افغان عوام اپنے دشمن کو پہچان کر اسے اپنی صفوں سے بھگا دے تو افغانستان میں قیام امن کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ آپ نے کہا کہ نیٹو کی مداخلت کے حوالے سے افغان عوام خود ذمہ دار ہے، جس نے اس بیرونی مداخلت کو قبول کر لیا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی لہر کو ختم کرنے کے لیے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے تعلیم اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ آپ نے افغان عوام کو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے دہشت گردی کے خلاف اپنی معرکۃ الاراء تصنیف فتویٰ سے رہنمائی لینے کی بھی پیش کش کی۔

شیخ الاسلام کا کہنا تھا کہ افغانستان کے لوگوں کو اسلام کی غلط تشریح پڑھنے اور سننے کو ملی، جس کی وجہ سے وہ شدت پسندی اور انتہاء پسندی کے لبادے میں لپٹ کر دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ آج بھی وقت ہے کہ یہ بہادر اور سنگلاخ چٹانوں جیسا حوصلہ رکھنے والے لوگ علم و عمل کی بصیرت سے بہرہ ور ہو کر آنے والے دور کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ساری افغان قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد اور یکجا ہوجانا چاہیے۔ جس میں خطے اور بالخصوص افغانستان کی ترقی پوشیدہ ہے۔

اپنی گفتگو کے بعد شیخ الاسلام نے شرکاء کی طرف سے پوچھے گئے مختلف سوالات کے انہیں تسلی بخش جواب دیئے۔ سوال و جواب کی نشست میں شرکاء نے سیاست اور مذہب کے حوالے سے اہم سوالات بھی کیے۔ اس حوالے سے جواب دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ سیاسی امور کو مذہب کے ساتھ گڈ مڈ نہ کیا جائے۔ بالخصوص جہاد کے غلط تصور کی وجہ سے مذہب کو بدنام کرنا ایک عالمی سازش ہے، جس سے بچنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسلام میں جہاد کا تصور جہاد برائے امن ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی دہشت گردی ہے، اس کا اسلام سمیت دنیا کا کوئی بھی مذہب حامی نہیں ہے۔

سوال و جواب کی اس نشست سے افغان آئمہ کرام سمیت تمام شرکاء بہت متاثر ہوئے جنہوں نے شیخ الاسلام سے مزید تبادلہ خیال کے لیے الگ ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی۔

شرکاء اور تمام معزز مہمانوں کی خواہش پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ مزید نشست کے لیے انتظامیہ نے کانفرنس کا بقیہ شیڈول منسوخ کردیا۔ اس موقع پر تمام شرکاء نے افغان امور پر شیخ الاسلام کا اظہار خیال دلجمعی سے سنا۔ اس نشست میں بھی افغان آئمہ کرام اور اسکالرز سمیت تمام معززین نے شیخ الاسلام سے تصور جہاد کے حوالے سے سوال و جواب کی صورت میں تبادلہ خیال کیا۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ وہ جہاد کے نام پر پھیلائی جانے والی دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ نے انہیں انتہائی تسلی بخش علمی گفتگو کر کے سب شرکاء کو مطمئن کیا۔ نشست کے آخر میں تمام معزز مہمانوں اور اسکالرز نے شیخ الاسلام کے علمی و فکری گفتگو کو خراج تحسین پیش کیا۔

اس کے علاوہ کانفرنس میں الازھر یونیورسٹی کے صدر شیخ ڈاکٹر اسامہ نے خطاب کیا۔ انہوں نے افغانستان میں مذہب کے فروغ و اشاعت کے موضوع پر گفتگو کی۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے بھی شیخ الاسلام کی باتوں اور افغانستان کے مستقبل کے لیے پیش کی جانے والی حکمت عملی کو بے حد سراہا۔ منہاج یونیورسٹی لاہور کے گریجوایٹ ڈاکٹر غلام عمر جو جامعہ الازھر میں مدرس ہیں، انہوں نے بھی کانفرنس میں اظہار خیال کیا۔

تبصرہ