امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں شیخ الاسلام کا لیکچر

10 نومبر 2010ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے "اسلام کا تصور جہاد" کے موضوع پر امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں خصوصی لیکچر دیا۔ اس لیکچر میں امریکی تھنک ٹینکس، اسکالرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز، دانشور، انجینئرز اور مختلف شعبہ جات کے ماہرین نے شرکت کی، جب کہ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے صدر صاحبزادہ حسن محی الدین قادری نے بھی اس لیکچر میں شرکت کی۔

شیخ الاسلام نے اپنے لیکچر میں جہاد کے بارے میں پائے جانے والے مغالطوں کا ازالہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلام کا تصور جہاد عالمی قیام امن کا ضامن اور فلاحی ریاست کا نقشہ پیش کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے نام نہاد جہادی گروہ اپنے مفادات کی خاطر اسلام کے تصور جہاد کو غلط انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ جہادی گروہ قرآن میں تصور جہاد پر مشتمل آیات کو اپنے مفہوم کے مطابق غلط تشریح کے ساتھ پیش کرتے ہیں جس سے جہاد کا معنی و مفہوم صرف قتال اور قتل و غارت سامنے آتا ہے۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔

اسلام کے تصور جہاد کے حوالے سے مختلف نکات بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا کہ اسلامی جہاد قطعی طور پر "لڑائی، جھگڑے، قتل و غارت اور خون ریزی" کا نظریہ پیش نہیں کرتا۔ قرآن حکیم میں جہاد کے موضوع پر 35 آیات ہیں، جس میں 31 آیات کے معنی و مفہوم نہ تاریخی اعتبار سے اور نہ ہی اصطلاحی اعتبار سے جہاد کا معنی و مفہوم ہے۔

آپ نے کہا کہ ان 31 قرآنی آیات میں جہاد کا معنی و مفہوم مختلف معنوں میں ہے، جن میں ایک معنی بھی قتال، قتل و غارت، لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کا نہیں ہے۔ لیکن بعض عاقبت نااندیش لوگ ان آیات کی غلط توضیح و تشریح کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

آپ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ مجھے قرآن پاک میں کوئی آیت بھی ایسی نہیں ملی جس میں جہاد اور قتال کا لفظ اکٹھا آیا ہو۔ جہاد اور قتال دو الگ الگ لفظ ہیں، جو قرآن میں کہیں بھی ایک ساتھ اکٹھے نہیں ہوئے۔

دوسری جانب قرآن میں جہاد کے مفہوم میں دفاعی جنگ کا تصور موجود ہے۔ جہاد جارحیت پسندی اور جنگ کرنے کا نام نہیں بلکہ قرآنی مفہوم کے مطابق یہ اپنی حفاظت کا نام ہے۔ اسی طرح ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں 13 سال تک مختلف قوتوں کا مقابلہ کیا۔ ان سب لڑائیوں میں آپ نے سیلف ڈیفنس کیا۔ مسلمانوں نے ایسی جنگ نہیں لڑی، جس میں انہوں نے دشمن پر خود حملہ کیا ہو۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر 5 قرآنی آیات ایسی نازل ہوئں، جن میں "سیلف ڈیفنس" کا ذکر آیا۔

شیخ الاسلام نے جہاد کے مختلف معنی بتاتے ہوئے کہا کہ جہاد کا پہلا معنی "جہاد اکبر" ہے، جو "جہاد بالنفس" ہے۔ یعنی اپنے نفس سے جہاد کرنا، اپنی خواہشات کو توڑ دینا۔ ایک اچھا انسان بننے کے لیے اس کی روحانی تربیت کا نام "جہاد بالنفس" ہے۔

جہاد کا دوسرا معنی "اجتہاد" ہے یعنی وہ مجتہد جس کی اسلام میں اپنی شرعی و قانونی اور علمی حیثیت ہوتی ہے۔

جہاد کا تیسرا معنی سماجی پہلو سے ہے اور یہ "جہاد بالعمل" ہے۔ اس سے مراد تعلیم کے میدان میں جہاد ہے، سماجی شعبہ میں جہاد ہے، معاشرے سے برائیوں کو ختم کرنے کا نام جہاد ہے۔ مجموعی طور پر پرامن جد و جہد کا نام جہاد ہے۔ معاشرے میں اچھی باتوں کا پرچار کرنا اور بری باتوں سے روکنے کا نام جہاد ہے۔

جہاد کا چوتھا معنی، "جہاد بالمال" ہے۔ قرآن حکیم میں خاص طور پر دو اقسام جہاد کا ذکر ہے۔ ایک اپنے نفس سے جہاد کرنا اور دوسرا اپنے مال سے جہاد کرنا۔ قرآن پاک کے مطابق اگر آپ فلاحی کاموں اور سوشل سرگرمیوں میں اپنی رقم خرچ کرتے ہیں تو یہ جہاد بالمال ہے۔ معاشرے میں غربت و جہالت کو ختم کرنے اور معاشرتی خوش حالی کے لیے مسلمان جو رقم خرچ کرتے ہیں وہ جہاد بالمال ہے۔

جہاد کا پانچواں معنی "دفاعی حکمت عملی" ہے۔ جب مسلم ریاست پر کوئی حملہ آور ہو تو ریاست اس کا جواب دیتی ہے۔ یہ دفاعی جہاد ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی چارٹر میں بھی یہ درج ہے کہ جب آپ پر کوئی جنگ مسلط کرے تو آپ اس کا جواب دیں۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے ہجرت کی تو آپ پر 2 آیات نازل ہوئیں۔ جن میں جہاد کا تصور دفاعی جنگی حکمت عملی ہے اور یہی قتال کا مفہوم ہے۔

1۔ سورۃ الحج، آیت 39
2۔ سورۃ البقرہ، آیت 190

آپ نے کہا کہ یہ سب سے دل چسپ نقطہ ہے، جو اسکالرز اور اہل علم چھوڑ جاتے ہیں اور جہاد کے مفہوم کو گڑ بڑ کر جاتے ہیں۔ مغربی مفکرین بھی یہاں آ کر جہاد اور قتال کا مفہوم صحیح واضح نہیں کرتے۔

آپ نے کہا کہ اس طرح کسی بھی اسلامی ریاست میں کوئی ایک شخص یا گروہ اپنی طرف سے کسی فریق کے خلاف جنگ مسلط کرنے کا اعلان خود سے نہیں کر سکتا۔ اس کا اختیار ریاست کے پاس ہے۔ آپ نے کہا کہ جب اسلام کے اعلان کو 20 سال گزر گئے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے 13 سال مکہ میں اور 7 سال مدینہ میں گزارے تو پھر مسلمانوں کو دفاعی جنگ کا حکم ہوا۔

سورۃ البقرہ کی آیت 190 میں ہے کہ اس وقت مسلمانوں نے اپنی حفاظت میں معاہدہ امن کیا۔

شیخ الاسلام نے مزید کہا کہ 60 سے زائد جنگیں ایسی تھیں، جس میں مسلمانوں نے شرکت کی، ان جنگوں میں ایک بھی ایسی نہ تھی جو مسلمانوں نے خود لڑی ہو بلکہ ہر جنگ مسلمانوں پر مسلط کی گئی۔ مسلمانوں نے صرف اپنی حفاظت اور دفاع کے لیے مخالف کا مقابلہ کیا۔

اسی تناظر میں "جہاد فی سبیل اللہ" کے الفاظ بھی غلط مفہوم میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب صرف اللہ کے لیے ہے: "جہاد اللہ کے لیے"

صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے کہ جب دوران جنگ عورتوں کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔ بچوں، مریضوں، پادریوں، عیسائی مذہبی رہنماؤں، کسانوں، تاجروں اور سفارتکاروں کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اسلام کے جنگی اصول ہیں۔ اسلام نے جنگ کے ایسے درخشاں اصول مقرر کیے ہیں کہ مسلمان حالت جنگ میں بھی دشمن کے سبز درختوں کو نہیں جلا سکتے۔ شہری آبادی پر حملہ نہیں کر سکتے۔ یہ اسلام کا جنگی دستور ہے، جس میں مسلمانوں کے تمام فقہی مذاہب کا اتفاق ہے، جب کہ یہ درخشاں جنگی اصول دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہیں۔

آپ نے کہا کہ خود کش حملوں کا تصور اسلام میں کہاں سے آ گیا ہے؟ یہ سب مجرمانہ کارروائیاں اور اسلام دشمن سازشیں ہیں، جو اسلام کو بدنام کرنے والے کر رہے ہیں۔ اسلام میں قتل و غارت اور خود کش کرنے والے مسلمان نہیں بلکہ خارجی ہیں۔ یہ اسلام پر حملہ کرنے والا وہ پہلا خارجی گروہ تھا، جس نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کیا۔ انہوں نے قرآن کی حکمرانی کا جھوٹا نعرہ لگا کر قتل و غارت گری اور فتنہ خارجیت کی بنیاد رکھی۔ ایک سو سے زائد احادیث مبارکہ ایسی ہیں جو خارجی فتنہ واضح کرتی ہیں۔ ان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے خارجی گروہ کو اسلام سے خارج قرار دیا۔ اس فتنے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

آپ نے صحیح بخاری و صحیح مسلم سے دہشت گرد خارجیوں کی درج ذیل نشانیاں بھی بیان فرمائیں:

  • یہ نوجوان ہوں گے۔
  • ان کی ذہن سازی کی گئی ہوگی۔
  • یہ گھنی داڑھیوں والے ہوں گے۔
  • یہ شدت پسند ہوں گے۔
  • یہ مشرق سے نمودار ہوں گے۔
  • یہ متشدد ہوں گے۔
  • یہ قرآن پاک کی آیات کا حوالہ دیں گے۔
  • یہ وضع قطع میں خود کو اسلام کی حفاظت کرنے والے ظاہر کریں گے۔
  • یہ اچھی بات کہیں گے لیکن ان کا ارادہ برا ہوگا۔
  • یہ مخلوق میں سے بد ترین مخلوق ہوں گے۔
  • یہ قتل و غارت گری کریں گے۔
  • یہ ہر دور میں ظاہر ہوتے رہیں گے اور یہ فتنہ قیامت تک نمودار ہوتا رہے گا۔
  • ان دہشت گرد خارجیوں کی سب سے مشترکہ نشانی ہے کہ یہ حکومت وقت کے خلاف آواز اٹھا کر قتل و غارت گری کریں گے اور بظاہر اسلام کے نفاذ کا نعرہ لگائیں گے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ آج کے دور میں جہاد کے حوالے سے ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جب مسلمانوں کو اپنے دفاع کی اجازت ملی تو کچھ مغربی مفکرین نے جہاد سے متعلقہ تمام آیات کا ترجمہ یہ کر دیا کہ مسلمان غیر مسلموں کو قتل کرنے کو جہاد قرار دیتے ہیں۔ اسلام میں ایسا تصور ہی نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جسے آج دور کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ نے کہا کہ مسلمان اور غیر مسلم ممالک کے درمیان بنیادی تعلق جنگ نہیں بلکہ انسانیت ہے۔ آپ نے کہا کہ منہاج القرآن دنیا بھر میں نوجوانوں کے لیے ایسے پروگراموں کا انعقاد کرتا ہے، جہاں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف اسلام کا درس دیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ہر سال چار روزہ الہدایہ کیمپ ہوتا ہے جس کا مقصد دنیا کے سامنے اسلام کے پرامن ہونے کا پیغام دینا ہے۔

لیکچر کے بعد شرکاء نے شیخ الاسلام سے سوالات بھی کیے جن کے آپ نے تفصیلی اور اطمینان بخش جوابات دیے۔ سوالات کی نشست ایک گھنٹہ جاری رہی۔

تبصرہ