71 واں یومِ آزادی

آج ہم 71 واں یوم آزادی منارہے ہیں، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے قبل 101 باراور قیام پاکستان کے بعد 14 بار کہا کہ پاکستان کے دستور اور معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ انہوں نے بار بار کہا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی، انصاف، انسانی مساوات اور معاشی عدل کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے جس میں وڈیرے، جاگیردار اور دولت مند بالادست طبقے مزارعوں، غریبوں کا استحصال کریں۔ 11 اگست 1947ء کی تقریر میں بانی پاکستان نے میثاق مدینہ کی طرز پر اقلیتوں کو برابر کے حقوق دینے کا عندیہ دیا اور سفارش، ذخیرہ اندوزی، سمگلنگ اور ناجائز منافع خوری کے خاتمے کا وعدہ کیا۔آج اگر ہم بانی پاکستان کے تصور پاکستان اور زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو ہمیں زمین اور آسمان کافرق دکھائی دیتا ہے۔ بانی پاکستان نے کہا تھا کہ قانون کی حکمرانی ہو گی، مگر آج قانون کی جگہ ’’ن‘‘ کی حکمرانی نے لے رکھی ہے۔ تمام ادارے، محب وطن سیاسی قوتیں ایک طرف مگر پاکستان کو لوٹنے والے ایک طرف کھڑے ہیں۔ حکومتیں انصاف کے عمل کو تیز تر کرنے کیلئے معاونت کرتی ہیں مگر موجودہ حکمران ہر سطح پر انصاف کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیں۔ 71 ویں یوم آزادی کے موقع پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ عوام کرپشن کی ہوشربا کہانیوں کی زد پر ہیں۔ اپریل 2016 ء میں پاناما لیکس منظر عام پر آئیںجن میں حکمران خاندان کی آف شور کمپنیوں کا ذکر تھا ،وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ وہ پاناما لیکس، آف شور کمپنیوں اور لندن فلیٹس کی خریداری کی منی ٹریل دیں مگر وزیراعظم نے پارلیمنٹ سے خطاب، قوم سے دوبارہ خطاب اور پھر سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی میں مسلسل 60 دن تک منی ٹریل کے حوالے سے جھوٹ بولا۔ پاناما تحقیقات کیلئے قائم جے آئی ٹی سے تعاون کرنے کے بجائے اس کا مذاق اڑایا گیا، ممبرز کو دھمکیاں دیں۔ یہ انتہائی بدقسمتی اور موجودہ جمہوری نظام کا کھوکھلا پن ہے کہ لیڈر آف دی ہائوس پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولتے ہیں اور پھر جھوٹ ثابت ہونے کے باوجود وزیراعظم مستعفی ہونے اور خود کو قانون کے حوالے کرنے کے بجائے ملک و قوم کو انتشاراور وسوسوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔

امید ہے ان سطور کی اشاعت تک پاناما کے منفی کردار اپنے انجام سے دوچار ہو چکے ہونگے تاہم یہ سوال اپنی جگہ بدستور قائم رہے گا کہ آخر کب تک قائداعظم کا پاکستان چوروں، لٹیروں کے رحم و کرم پر رہے گا؟ کب تک نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے خودکشیاں کرتے رہیں گے؟ مجید اچکزئی انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر گاڑیوں تلے روندتے رہیں گے؟ ریاستی طاقت کے نشے میں مست حکمران سانحہ ماڈل ٹائون برپا کرتے رہیں گے؟ پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے غریب پٹرول اور آگ کی چادر اوڑھتے رہیں گے؟ سرکاری ادارے انصاف دینے کی بجائے سٹاک مارکیٹوں میں تبدیل ہوتے رہیں گے اور کب تک قوم کرپٹ عناصر سے جان چھڑوانے کی دعائیں کرتی رہے گی؟

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 15 جولائی 2017 ء کے دن مال روڈ لاہور پر عوامی تحریک کے احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ایک فکر انگیز بات کی کہ پاناما کیس کے حوالے سے ایک فرد ہٹا اور اس کی جگہ کسی اور نے لے لی اور ظلم، لوٹ کھسوٹ کو تحفظ دینے والا یہ نظام قائم رہا تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کل کو کوئی اور نواز شریف ملک لوٹے گا، جے آئی ٹی بنے گی اور کرپشن کنگز کو ہٹانے کی مہم چلے گی، آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟

قائد انقلاب نے اس کا حل بھی دیا کہ لوٹ کھسوٹ، ظلم وجبر کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہر اس شخص کا کڑا احتساب کیا جائے جو حکومت یا پارلیمنٹ کا حصہ رہا یا آئندہ پارلیمنٹ کا حصہ بننے کا آرزو مند ہے۔ اس سے اثاثوں اور اس کے لگژری رہن سہن کی منی ٹریل مانگی جائے اور جو اپنے ذرائع آمدن کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا جواب نہ دے سکے اسے جیل میں ڈالا جائے۔ قائداعظم کے پاکستان کو بچانے کی یہی ایک صورت ہے کہ بلاتفریق سب کا احتساب کیا جائے ،آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انتخابی عمل میں ایسی اصلاحات لائی جائیں کہ کوئی چور ڈاکو اپنی حرام کی کمائی کے بل بوتے پر رائے عامہ خرید کر ریاست کے مقدس ایوانوں میں داخل نہ ہو سکے۔

بانی پاکستان نے انسانی مساوات کی بات کی تھی مگر پاکستان کے اندر دو پاکستان بنا دئیے گئے: ایک امیر کا پاکستان اور ایک غریب کا پاکستان۔ جس کے پاس بے پناہ پیسہ ہے وہ قانون سمیت سب کچھ خرید لیتا ہے اور ایک غریب کا پاکستان ہے جس میں غریب دوائی کے پیسے نہ ہونے کے باعث ہسپتال کی سیڑھیوں میں جان دے دیتا ہے اور لواحقین کے پاس لاش آبائی قبرستان تک لے جانے کے بھی پیسے نہیں ہوتے۔ جبکہ قائداعظم نے کہا تھا کہ مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے جس میں وڈیرے، مزارعوں کا استحصال کریں مگر افسوس یہ ظلم اپنی پوری طاقت کے ساتھ ہورہا ہے۔ گاڈ فادرز اور مافیا اس حد تک مضبوط ہو چکا ہے کہ ادارے ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرتے ہوئے بھی سہمے ہوئے ہیں۔ ایک طبقہ نے پورے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس کی ایک جھلک پاناما کیس کی تحقیقات کے دوران دیکھی جا سکتی ہے۔

پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے حکمران خاندان کے احتساب کے لیے جے آئی ٹی بنائی اور تمام اداروں کو اس جے آئی ٹی سے تعاون کا حکم دیا مگر جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ بعض اداروں نے پورا تعاون نہیں کیااپنی پسند کی دستاویزات اور اس کے حصے دیے۔ پاناما تحقیقات نے ایک خاندان کے چہرے پر پڑا ہوا نقاب نہیں ہٹایا بلکہ اس پورے سسٹم کو ننگا کر دیا ہے۔یقینا قائداعظم کی روح یہ دلدوزمناظر دیکھ کر تڑپ رہی ہوگی۔ قائداعظم نے مساوات اور برابری کی بات کی تھی مگر قائداعظم کی مسلم لیگ کے نام پر ایک سیاسی لمٹیڈ کمپنی قائم کر لی گئی جس نے انصاف، قانون کی دھجیاں اڑائیں،دولت کے پہاڑ کھڑے کیے۔ پاناما کیس کے حوالے سے قائم جے آئی ٹی نے جب میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم صفدر کو طلب کیا تو حکومتی حواریوں نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کر دیا اور کہا کہ بیٹیوں کا احترام تو سب کرتے ہیں مگر شکریہ قومی الیکٹرانک میڈیا کا جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹائون کی وہ فوٹیج حکمران خاندان کو دکھائی جس میں انہیں بتایا گیا کہ کس طرح قوم کی دو بیٹیوں تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ کو پنجاب پولیس نے بالوں سے پکڑا، ان کے چہرے سرکاری بندوقوں کی گولیوں سے چھلنی کیے اور اس ملک کا وزیراعظم اور صوبہ کا وزیراعلیٰ ان مناظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

71 ویں یوم آزادی پر دلی دعا ہے کہ اللہ قاتلوں، غاصبوں اور قومی خزانے کے لٹیروں سے پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات دے۔ (آمین)

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اگست 2017

تبصرہ