پاکستان عوامی تحریک کا 28 واں یوم تاسیس

آئینی حقوق، حقیقی جمہوریت کی بحالی، تبدیلی نظام اور پرامن انقلابی جدوجہد کا عظیم سفر

تحریر: ساجدمحمود بھٹی

25 مئی 1989 کو قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘ کے قیام کے ساتھ اس ملک میں سیاسی انقلابی جدوجہد کا آغاز کیا، یوں تو یہ عظیم سفر 28 سالوں پر محیط ہے اور اس میں بہت سے سنگ میل عبور کیے گئے، مختصر وقت میں اس تمام سفر کو الفاظ میں قید کرنا ممکن نہیں لہٰذا کوشش کریں گے کہ پاکستان عوامی تحریک کی فکر اور انداز کار کے بارے میں پائے جانے والے چند اشکالات کو واضح کیا جائے۔

سب سے پہلے قارئین کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ پاکستان عوامی تحریک کوئی روایتی سیاسی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری روایتی سیاستدان ہیں کیونکہ ’’سیاستدان اگلے انتخابات جبکہ ایک لیڈر اگلی نسلوں کے بارے میں سوچتا اور عمل کرتا ہے‘‘ہم سیاسی جدوجہد کی تمام جہتوں پر عمل کے قائل ہیں، صرف انتخابی مشق کو ہی سیاسی جدوجہد نہیں سمجھتے ہم انتخابی عمل کو جائز اور ضروری سمجھتے ہیں مگر خالصیت اور اس کی روح کے ساتھ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان عوامی نے تحریک 1990 کے انتخابات کے فوری بعد طویل بحث، مباحثوں کا آغاز کیااور ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی ترقی اور خوشحالی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ’’موجودہ کرپٹ نظام انتخابات ہے‘‘ لہٰذا PAT نے اس نظام کی تبدیلی کیلئے عملی جدوجہد کا آغاز کیا جو مختلف منزلیں طے کرتے ہوئے جاری و ساری ہے۔

اس سفر میں قائد انقلاب نے عوام پاکستان کو متحرک اور منظم کرنے اور اپنے پروگرام اور منشور کو عام کرنے کیلئے ملک گیر دورہ جات کیے، اس عظیم سفر میں قائد انقلاب چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر کے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ گئے اور فقید المثال کانفرنسزسے خطاب کیے، تاریخ گواہ ہے کہ قائد انقلاب نے جس انداز میں ملک گیر طوفانی دورہ جات کیے پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ملک بھر میں اس نظام کے خلاف بیداری شعور کے لیے ہزاروں رضا کاران پر مشتمل عوامی تعلیمی مراکز کا قیام 1998ء میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سربراہی ’’پاکستان عوامی اتحاد‘‘ کا قیام جس میں محترمہ بینظیر بھٹو، محترم نواب زادہ نصیر اللہ خان، محترم حامد ناصر چٹھہ، محترم مرزا محمد اسلم بیگ اور دیگر 23 جماعتوں کے قائدین شریک تھے۔ عوامی اتحاد کے پلیٹ فارم سے ملک گیر تحریک چلائی گئی جو نواز حکومت کے خاتمے پر منتہج ہوئی۔

2000ء کے انتخابات میں ہزاروں کی تعداد میں کونسلرز، ناظمین اور نائب ناظمین کامیاب ہوئے، 2004ء سے 2012ء تک ایک ’’کروڑ نمازیوں‘‘ کی تیاری’’ بیداری شعور‘‘ کے سفر کا آغازہوا، ہر مرحلہ پر پاکستان عوامی تحریک کے تنظیمی نیٹ ورک کو پھیلاؤ اور استحکام ملا اور تحریک کے کارکنان کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا جس کا اظہار 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان پر ہونے والے ’’عوامی استقبال‘‘ کے پروگرام کے ذریعے دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ایک ملین سے زائد لوگ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے استقبال کیلئے اپنے خرچ پر جمع ہوئے۔

پاکستان عوامی تحریک جمہوریت اور جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے مگر بدقسمتی سے جمہوریت سے مراد پانچ سال بعد محض انتخابی عمل اور ووٹ کی ایک پرچی کا صندوق میں ڈال دینا ایک بے وقت اور برائے نام پارلیمنٹ اور حکومت کی تشکیل ہی رواج پا چکا ہے جبکہ انتخابات، سیاست اور جمہوریت کا ایک جزو ہے، پاکستان عوامی تحریک سمجھتی ہے کہ جمہوریت محض عارضی عمل کا نام نہیں بلکہ ایک رویے کا نام ہے۔

اس ملک میں 70 سال سے انتخابی عمل جاری ہے مگر جمہوریت نہ آسکی، موروثی سیاست مزید جڑیں مضبوط کررہی ہے، ادارے تباہی کی طرف جارہے ہیں، آئین کا پہلا آدھا حصہ (آرٹیکل 40)عملاً معطل کر دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ بے وقعت ہوتی جارہی ہے، اہم قومی اور بین الاقوامی امور پارلیمنٹ سے باہر طے کیے جارہے ہیں۔ اسمبلی میں منظور ہونے والی 26 ترامیم میں سے ایک ترمیم بھی عوامی حقوق کے تحفظ اور فراہمی کے لیے نہیں کی گئی اور آہستہ آہستہ اب طرز حکمرانی بھی جمہوریت کی بجائے ’’خاندانی بادشاہت‘‘ میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔بڑے بڑے جرائم اور کرپشن پر کوئی احتساب نہیں کوئی گرفت نہیں بلکہ ملزمان شان و شوکت پاتے ہیں۔

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور دیگر سیاستدانوں میں یہ ہی فرق ہے کہ دیگر لوگ کسی بھی طرح انتخابات میں اپنی سیٹ جیتنے کیلئے کوشاں ہیں جبکہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 70 سال سے جاری اس ’’بےنتیجہ مشق‘‘ کی بجائے پورے نظام کو تبدیل کر کے ایک ایسے نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں جس میں عام آدمی کو طاقت ملے، ادارے مضبوط ہوں، 70 سال سے ملک اور عوام پر ’’قابض مافیا‘‘ سے عوام کو نجات حاصل ہو۔

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کردار محض ایک سیاستدان کا نہیں بلکہ ایک رہبر اور ایسے صاحب بصیرت رہنما کا ہے جو آنے والے حالات کو قبل از وقت دیکھ لے۔یہ ہی وجہ ہے کہ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آج تک جو کچھ تجزیہ کیا اور بیان فرمایا وقت اور حالات نے سچ ثابت کیا، اسی وجہ سے مخالفین بھی کہنے پر مجبور ہیں کہ’’ڈاکٹر طاہرالقادری سچ کہتے ہیں‘‘

مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی بات ان ’’دانشوران‘‘ قوم کو سمجھ اس وقت آتی ہے جب چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتی ہیں۔

پاکستان عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاسی جدوجہد پر نظر ڈالیں تو بہت سے سنگ میل عبور ہوئے بیداری شعور کی تحریک میں عوامی قوت میں اضافہ اور 23دسمبر کو لاکھوں لوگوں کی شرکت پاکستان عوامی تحریک کی عوام میں مقبولیت اور قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے پیغام کی موثریت کا ثبوت ہے۔ 23دسمبر کے عظیم الشان جلسہ میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’لانگ مارچ‘‘ کا اعلان کیا۔ صرف 17دن کے نوٹس پر اسلام آباد کی جانب ’’لانگ مارچ‘‘ سرد ترین موسم میں مرد و خواتین اور بچوں کی شرکت اور قربانیاں بے مثال اور لازوال ہیں، اس لانگ مارچ کے موقع پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انتخابی اصلاحات کیلئے جس پیکیج کا اعلان کیا تھا اگر ’’تبدیلی‘‘ کی خواہشمند قوتیں اس وقت ان انتخابی اصلاحات کا ساتھ دیتیں تو دھاندلی کے نام گریہ و زاری کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔مگر تاریخ کے اوراق میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی کاوش کو ہمیشہ سنہری حروف میں یاد رکھا جائے گا۔قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس قوم کو آئین کا شعور دیا، عوام کو پہلی دفعہ آئین کی دفعات کے ساتھ اپنے حقوق کا علم ہوا، اس نظام کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب ہوا۔

بیداری شعور کی اس جدوجہد کے اگلے مرحلہ میں دوسرے دھرنے کا اعلان 17جون کو 14 نہتے شہریوں کا قتل عام ڈاکٹر طاہرالقادری کی وطن واپسی، طیارے کا لاہور موڑا جانا، ماڈل ٹاؤن کا محاصرہ، کارکنان کی گرفتاریاں اور تشدد، قربانیاں کا وہ سلسلہ ہے جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی جو سلسلہ آج بھی جاری ہے، کارکنان نے نہ صرف قربانیاں دیں بلکہ قاتلوں کی جانب سے کروڑوں روپے کے لالچ اور ہر طرح کے نقصان کی دھمکیوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا، اس کے بعد کم و بیش تین ماہ تک ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، بزرگوں، نوجوانوں اور بچوں کا ہر طرح کے مشکل ماحول میں دھرنے میں شریک رہنا ایک عظیم مقصد کیلئے جدوجدہ کا مینارہ نور ہے۔

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور پاکستان عوامی تحریک کی کاوش اور فکر کو سمجھنے کیلئے روایتی پیمانے اور آئینے اتارنے ہونگے۔ ایک ایسے دور میں جب سیاستدان مال بنانے، اپنی اولادوں کو ’’ولی عہد‘‘ اور خدا جانے کیا کچھ بنانے کے عمل میں مصروف ہوں، اس دور میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی 28 سالہ جدوجدہ کے ذریعے ایک ایسی ’’انقلابی نسل‘‘تیار کی ہے جو ظلم کے خلاف لڑنا اور مرنا جانتی ہے اگر یہ انقلابی ذرہ بھر حرکت کریں تو ایوانوں میں آج بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ 70 سال سے مجبور، محروم، مایوسی کے گڑھے میں گری ہوئی عوام کو بیدار کرنا اور وہ بھی ایسے ماحول میں جب حاکم، بادشاہان وقت سامراجی نمائندے، لالچ اور قوت کا ہر حربہ بھی اختیار کرتے ہیں۔

لاکھوں انقلابیوں، سرفروشوں کی تیاری کسی انقلاب سے کم نہیں:

ایک وقت وہ تھا جب موجودہ کرپٹ نظام کو ’’مقدس ترین‘‘ شمار کرتے ہوئے اسے ’’پوجا‘‘ جاتا تھا، اس نظام کے خلاف بات ملک دشمنی تصور ہوتا تھا مگر پاکستان عوامی تحریک کی اس نظام کے خلاف معرکتہ الآراء بے مثال جدوجہد کے نتیجہ میں آج کوئی بھی ٹی وی پروگرام اس وقت تک عوام میں مقبولیت نہیں پا سکتا جب تک نظام کے ’’مکروہ چہرے کا گھناؤنا پن بے نقاب نہ کرے۔

پاکستان عوامی تحریک کی اس جدوجہد سے قبل لوگ اکثر کہا کرتے تھے کہ اس ملک میں کچھ نہیں ہو سکتا مگر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آج عوام کو آگہی اور زبان دی، اپنے حقوق کیلئے لڑنا سکھایا، یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت ہر طبقہ اور ہر شعبہ کے افراد اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں، ہر روز کسی نہ کسی شہر میں ’’دھرنا‘‘ ہوتا ہے، کاش یہ دھرنے ہمارے دھرنے کے ساتھ ہوا کرتے تو آج یہ دھرنے نہ دینا پڑتے مگر حق کیلئے احتجاج کی رسم چل نکلی ہے جس کا سہرا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے سر ہے اور یہ سفر آگے بڑھے گا۔

یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ انقلابی جدوجہد کوئی آسان اور ریاضی کے فارمولے 2+2=4 کی طرح کا عمل نہیں ہے۔ یہ جہد مسلسل ہے جس نظام کے خلاف ہم جنگ لڑرہے ہیں اس نظام سے فائدہ اٹھانے والے (محافظ)اسکو بچانے کیلئے کوشاں ہیں، اس نظام کے محافظ ’’آئین‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر اپنے مفادات کی خاطر، اداروں کے تحفظ اور بقاء کے نام پر اس قوم کے ساتھ دھوکہ کررہے ہیں۔اس نظام کہن کی تبدیلی سامراجی ایجنٹوں اور ’’کاروباری سیاستدانوں‘‘ کی سیاسی اور مفاداتی موت کا باعث ہے۔ اس لیے اس نظام کی بقاء کیلئے وہ سارے متحد ہیں۔ ان میں ’’مختلف لباسوں‘‘ اور مختلف حلیوں کے لوگ پائے جاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی حکمت عملی بنائیں گے ہمیں اپنی حکمت عملی بنانا ہے۔

سلام ہے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات اور قیادت کو جنہوں نے اس نظام کو چیلنج کیا، لاچار اور غریب و نادار کارکنوں کے ساتھ اس نظام پر کاری ضربیں لگائیں، گو کہ اس ’’کرپٹ نظام‘‘ کی دیواریں نہ گر سکیں مگر انقلابیوں کی ضربوں سے اس نظام کی دیواروں میں دراڑیں پر چکی ہیں اور اس کی خستہ اینٹیں آہستہ آہستہ اپنی جگہ چھوڑ رہی ہیں۔ کرپٹ نظام کی اس دیوار کے مکمل طور پر مسمار ہونے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی، ہمارے حوصلے جوان ہیں اور ہم پر دم پرعزم ہیں۔آج اس کرپٹ نظام کے ’’ہمنواؤں‘‘ میں کمی جبکہ اس کرپٹ نظام کے ’’باغیوں‘‘ کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

ہمیں عوام کو بیدار کرنا ہے، اپنی قوت میں اضافہ کرنا ہے، بیداری شعور کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہے، جس وقت بھی قیادت سمجھے گی کہ اب اس دیوار کو مسمار کرنے کے لیے ہمیں ایک اور ضرب لگانا ہے تو ہم تن من دھن کی بازی لگا کرکس کرپٹ نظام کی دیوار پر پوری قوت سے ضرب لگائیں گے اور انشاء اللہ اس نظام کا خاتمہ ضرور ہو گااور غریب عوام سربلند ہونگے۔

یوم تاسیس کے موقع پر ہم شہداء کی شہادتوں، کارکنوں کی قربانیوں، قائد انقلاب کی قیادت اور بصیرت اور عظیم انقلابی مجاہدوں کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور تجدید عہد وفا کرتے ہیں کہ ہم عظیم ’’عوامی انقلاب‘‘ کی منزل کے حصول کے لیے بے خوف اور پرعزم ہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔اپنے مقصد کے حصول کیلئے پاکستان عوامی تحریک انتخابی میدان کو بھی خالی نہیں چھوڑے گی۔ آنے والے انتخابات میں انقلابی منشور کے ساتھ بھرپور شرکت کرے گی۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جولائی 2017

تبصرہ