القرآن: قبولیتِ توبہ کی شرائط

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ جب کسی منزل کا حصول مقصود ہو یا کسی مقام و منزل تک پہنچنا مطلوب ہو تو اس سلسلے میں مسافر کو کچھ بنیادی شرائط پورا کرنا ہوتی ہیں جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جس قدر کوئی کام اہم ہوگا اُسی قدر اس کی شرائط بھی اہمیت کی حامل ہوں گی۔ توبہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک عظیم الشان مبارک فعل ہے کہ بندہ اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہو کر اس کی بندگی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ عرفاء نے اپنے اپنے طریق پر توبہ کی مختلف شرائط بیان کی ہیں، یہ شرائط ایسی ہیں کہ جن پر پورا اترنے کے بعد توبہ انسان کے لئے دنیا اور آخرت میں سود مند ہو سکتی ہے۔

حقیقت میں توبہ وہی ہے جو زبان سے ادا ہو کرقلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جائے اور بندے کی باقی ماندہ زندگی کے ماہ و سال کی کایا پلٹ کر رکھ دے۔ جھوٹے لوگوں کی توبہ ان کی زبان کی نوک پر ہوتی ہے۔ وہ محض استغفر اﷲ کہنے کو توبہ سمجھتے ہیں یعنی زبان سے توبہ کا لفظ ادا کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے دل پر ان الفاظ کی ادائیگی کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔

حقیقی توبہ کے باعث تائب کی تمام لغزشیں، کوتاہیاں اور تمام گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ یوں مٹ جاتے ہیں جیسے وہ ابھی ماں کے بطن سے نومولود بچے کی طرح معصوم پیدا ہوا ہو۔ توبہ سے قبل وہ گناہوں کے باعث جہنم کا مستحق تھا لیکن توبہ نے بندے کو اسفل سافلین سے اٹھا کر اعلیٰ علیین کے مقام پر فائز کردیا۔ بلاشبہ توفیقِ توبہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس سے محرومی، بخشش و معرفت کی محرومی سے کہیں بڑھ کر خطرناک ہے۔ کیونکہ بخشش و معرفت تو توبہ کے لوازمات اور اس کے پیچھے آنے والی ہے جبکہ توبہ سے محرومی ایمان کے برباد ہو جانے کے مترادف ہے۔

شرائطِ توبہ کے جمع ہونے پر توبہ کی قبولیت بفضل تعالیٰ یقینی ہو جاتی ہے۔ عمومی طور پر توبہ کی شرائط درج ذیل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان سچی توبہ کی برکات سے دائمی طور پر مستفیض ہو سکتا ہے:

  1. ندامت و شرمندگی

توبہ کی پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے برے طور طریقوں اور اعمال پر شدید پشیمانی اور شرمندگی محسوس کرے۔ یہ ندامت دراصل برے کاموں سے کنارہ کشی کی طرف پہلا قدم ہے۔ ندامت کے صحیح ہونے کی علامات میں دل کا نرم ہو جانا اور کثرت سے آنسوؤں کا جاری ہونا ہے کیونکہ جب دل کو اللہ اور اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا احساس جکڑلے اور اس پر عذاب کا خوف طاری ہو جائے تو یہ گریہ و زاری کرنے والا اور غم زدہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:

النَّدَمُ تَوْبَةٌ.

( أحمد بن حنبل، المسند، 1:376، رقم:3568)

’’ندامت ہی توبہ ہے۔‘‘

انسان اخلاص کے ساتھ حقیقی ندامت کے طفیل ایک ہی قدم میں مغفرت کی منزل پا لیتا ہے۔ جمہور محققین کے نزدیک خالص ندامت ہی توبہ کی اصل ہے اور یہ اﷲ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ جب بندہ مولیٰ کی توفیق سے اپنے اعمال پر غور کرتا ہے تو اسے اپنے کئے ہوئے برے افعال پر افسوس ہوتا ہے جس سے ندامت جنم لیتی ہے۔ جب کسی سے محبت کا قلبی تعلق قائم ہو جائے تو اس کی نافرمانی کرنے سے شرم آتی ہے۔ یہی شرم و حیا بندے کو توبہ کے دروازے پر لے جاتی ہے۔ حقیقی ندامت کی نشانی یہ ہے کہ دل میں رِقّت آجائے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اِجْلِسُوْا إِلٰی التَّوَّابِيْنَ فَإِنَّهُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً.

(غزالی، احياء علوم الدين،4: 15)

’’توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو اس لئے کہ ان کے دل سب سے زیادہ رقیق ہوتے ہیں (تاکہ اُن کی صحبت سے تمہیں بھی رقت نصیب ہو جائے)۔‘‘

  1. ترکِ گناہ و معصیت

توبہ کے عمل میں داخل ہونے کا یہ پہلا قدم ہے کہ انسان ندامت محسوس کرتے ہوئے ہر قسم کے گناہ سے کنارہ کش ہو جائے۔ برے فعل پر شرمندگی اور پشیمانی کے احساس سے بندے کے دل میں گناہ ترک کرنے کا داعیہ جنم لیتا ہے اور بندہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک کمزور اور حقیر ترین مخلوق ہو کر اس کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی حیاء نہ کی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ یہ احساس ترکِ گناہ پر منتج ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ، کََانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَائُ فِي قَلْبِهِ. فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ. فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتَّی تَغْلَفَ قَلْبُهُ.

(ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن، 5: 434، رقم: 3334)

’’مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔ (لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔‘‘

  • حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

اَلْاِسْتِغْفَارُ مِنْ غَيْرِ إِقْـلَاعٍ هُوَ تَوْبَةُ الْکَاذِبِيْنَ.

(قشيري، الرسالة: 95)

’’گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے‘‘۔

  • حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

زَلَّةٌ وَّاحِدَةٌ بَعْدَ التَّوْبَةِ أَقْبَحُ مِنْ سَبْعِيْنَ قَبْلَهَا.

’’توبہ کے بعد کی ایک لغزش توبہ سے پہلے کی ستر لغزشوں سے بدتر ہے‘‘۔

(قشيري، الرسالة: 97)

  • محمد زُقاق رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو علی روذباری سے توبہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:

گناہوں کا اعتراف، غلطیوں پر ندامت اور گناہوںکا ترک کرنا توبہ ہے۔

( سلمي، طبقات الصّوفية:272)

زندگی ایک میدانِ عمل ہے جس میں حقیقی کامیابی عملِ صالح کے بغیر ممکن نہیں اور ترکِ گناہ کے بغیر عملِ صالح کا کوئی تصور نہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی اور دنیوی امور کو علیحدہ علیحدہ پلڑوں میں رکھنے کے باطل طریقۂ کار نے ہمارے معاشرے میں نیکی کے تصور کو دھندلا دیا ہے۔ بیک وقت لُوٹ کھسُوٹ، ظلم و ناانصافی، حلق تلفی اور مفاد پرستی بھی جاری ہے اور عبادات کے نظام پر بھرپور توجہ بھی۔

حقیقت یہ ہے کہ اس منافقانہ طرزِ عمل کی موجودگی میں ترکِ گناہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ حقیقی توبہ اسی وقت ہوگی جب توبہ کے بعد گناہ کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔

  1. توبہ پر پختہ رہنے کا عزم

انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پختہ عہد کرے کہ جن نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں کا ارتکاب کر چکا ہے آئندہ یہ اس کی زندگی میں کبھی داخل نہیں ہوں گے کیونکہ توبہ کی ابدی سلامتی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے عہد پر پختہ رہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

اِلاَّ الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاﷲِ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ ِﷲِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ط وَسَوْفَ يُؤْتِ اﷲُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًاo

’’مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا‘‘

(النساء، 4: 146)

اس آیت مبارکہ میں {الَّذِيْنَ تَابُوْا} کے الفاظ بندے کی توجہ اس طرف مبذول کر رہے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی میں جس قدر بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں وہ سچے دل کے ساتھ توبہ کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے گڑگڑا کر اﷲ رب العزت کی بارگاہ سے عفو و درگزر کی دراخواست کرے۔ درحقیقت بندے کا اپنے سابقہ کئے گئے اعمال پر ندامت محسوس کرنا اپنے جملہ گناہوں سے رو گردانی کے مترادف ہے۔ بندہ جب تک نادم رہے گا اﷲ تعالیٰ کی رحمت اس پر سایہ فگن رہے گی۔

اِس ضمن میں حضرت امام غزالی توبہ کے باب میں ایک حکایت لائے ہیں کہ حضرت آدم e نے فرمایا: اے جبرائیل! اگر میری توبہ کی قبولیت کے بعد بھی مجھ سے اس بارے میں سوال ہوا تو میرا ٹھکانہ کیا ہو گا؟ تو اﷲ تعالیٰ نے وحی بھیجی: اے آدم! آپ نے اپنی اولاد کے لئے بطور وراثت رنج و تکلیف بھی چھوڑی اور توبہ بھی۔ ان میں سے جو مجھے پکارے گا تو میں اس کی دعا قبول کروں گا جس طرح آپ کی دعا قبول کی ہے۔ جو مجھ سے بخشش مانگے، میں اس سے بخل نہیں کروں گا کیونکہ میں قریب ہوں اور دعا قبول کرنے والا بھی۔ اے آدم! میں توبہ کرنے والوں کو قبروں سے اس طرح باہر لاؤں گا کہ وہ خوش ہوں گے اور ہنس رہے ہوں گے اور ان کی دعا قبول ہو گی۔

(غزالی، إحياء علوم الدين، 4: 5)

محض زبان سے توبہ کرنا منافقین کا عمل ہے۔ گناہ کو چھوڑنے کا پختہ ارادہ نہ کرنا اور حقیقی توبہ کے بعد بشری تقاضے کے باعث گناہ کا سر زد ہو جانا دو جدا باتیں ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اُس کے علم میں ہے کہ کون اپنی توبہ میں سچا اور کون جھوٹا ہے۔ حقیقی توبہ کے بعد بشری کمزوری کے باعث کسی بندے سے گناہ کا سر زد ہونا ممکن ہے لیکن اگر وہ گناہ کرنے کے بعد ستر بار بھی معافی مانگے تو توبہ قبول ہو گی لیکن اگر کوئی لوگوں کے سامنے خود کو نیک و پارسا ظاہر کر کے دھوکہ دینے کی غرض سے توبہ کرے گا اور پھر گناہوں میں مبتلا ہو گا تو اس کا معاملہ جدا ہے۔ اس لئے کہ اس نے تو علیم و خبیر رب تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) اپنے طور پر دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ بظاہر دیکھنے میں مذکورہ دونوں افراد کا عمل ایک جیسا نظر آتا ہے کہ گناہ پر گناہ کئے جارہے ہیں مگر حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے معاملے کے اعتبار سے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

  1. اصلاحِ احوال

توبہ کی یہ شرط تائب سے اگلے مرحلے کا تقاضا کرتی ہے اور وہ مرحلہ سنور جانے یعنی اصلاحِ احوال کا ہے۔ حقیقی ندامت انسان کے اندر ایک ہمہ گیر تبدیلی کو جنم دیتی ہے۔ ندامت صرف توبہ کے الفاظ ادا کرنے اور خالی آنسو بہانے کا نام نہیں۔ ندامت اور اس کے نتیجہ میںتوبہ کا اختیار کر لینا احوالِ حیات کا مکمل طور پر تبدیل ہو جانا ہے۔ جب تک توبہ کرنے والا اصلاح کی فکر نہیں کرتا وہ تائب ہی نہیں ہوتا۔ گناہوں سے شرمندگی کے باعث آنکھوں کا اشک ریز ہونا بھی قیمت پاسکتا ہے اگر اس کے نتیجے میں انسان کی زندگی سے اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی، فسق و فجور، ظلم و ناانصافی، شہوت رانی اور ہوس پرستی جیسے جملہ رذائلِ اخلاق کلیتاً خارج ہو جائیں اور انسان گناہوں سے یکسر پاک ہو کر اطاعت و بندگی کا پیکر بن جائے۔

توبہ کرنا کوئی معمولی فعل نہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کے محبوب بننے کا مقام ہے جیسے کہ خود باری تعالی نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ.

(البقرة، 2: 222)

’’بے شک اﷲ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘۔

  • حضرت ابو محمد سہل رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب کب بنتا ہے؟ فرماتے ہیں: جب وہ ہر اس کام سے دور ہو جائے جسے حق تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ جیسے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: {اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ} توبہ کرنے والے (ہی) عبادت کرنے والے ہیں۔

(ابو طالب مکی، قوت القلوب، 1:384)

یعنی توبہ بندگی سے مشروط ہے۔

  • عرفاء نے تائب کے لئے بعض امور کا بجالانا ضروی قرار دیا ہے۔ جن میں چند اہم ترین یہ ہیں:
  1. نافرمانوں کی صحبت سے اجتناب کیا جائے۔
  2. تائب کو ہر وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔
  3. کسی گناہ کو بھی معمولی خیال نہ کرے اور فضول کاموں سے الگ رہے۔
  4. جس گناہ سے توبہ کی اس کو کچھ اس طرح یاد رکھے کہ اس گناہ کا احساس اسے پریشان رکھے تاکہ آدابِ بندگی بجا لاتا رہے اور کبھی بھی اس کی حلاوت محسوس نہ کرے بلکہ اس کی کڑواہٹ محسوس کرے اور اس سے سخت نفرت کرے۔
  5. حقوق العباد میں سے اگر کسی سے ناانصافی یا ظلم کر بیٹھے تو اولاً اس کے حقوق ادا کرے اور اگر یہ توفیق نہیں پاتا تو پھر اس سے معافی کا خواستگار ہو اور اﷲ تعالیٰ سے عفو و درگزر کے لئے دست بہ دعا رہے۔

صحیح توبہ وہی ہے جو انسان کے شب و روز، افعال و اعمال اور حالات و کیفیات کو یکسر بدل کر رکھ دے۔ بندہ عبادت و ریاضت کا پیکر بن جائے اور رضائے الٰہی کا حصول اس کی خواہشات کا مرکزو محور بن جائے۔توبہ اپنے محبوب کے ساتھ پھر سے جُڑ جانے کا نام ہے۔ گناہ نے محبت کی حرمت کو مجروح کیا تو گناہگار احساسِ گناہ سے بوجھل ہو گیا، محبوب سے شرم آنے لگی، عفو و بخشش کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ہاتھ کانپ گئے، پھر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ایسی ہی توبہ مقبول ہے۔

  1. اخلاص

توبہ میں اخلاص احساسِ ندامت سے جنم لیتا ہے۔ گناہ پر شرمندگی اور پشیمانی جتنی زیادہ ہوگی توبہ اتنی ہی خالص ہوگی۔ گویا توبہ میں اخلاص کا دار و مدار بندے کے اپنے من کی سچائی پر ہے۔ اخلاص اس اَمر کا تقاضا کرتا ہے کہ دل سے احساسِ ندامت کبھی زائل نہ ہو اور گناہ سے بندے کو طبعی نفرت ہو جائے۔ محض زبان سے استغفار کا ورد کرتے رہنا اور دل کا اس سے غافل رہنا یا دل میں معصیت کی حسرت کا پوشیدہ ہونا کوئی توبہ نہیں۔ ہماری توبہ کا تو یہ حال ہے:

سبحہ در کف، توبہ بر لب، دل پُر از ذوقِ گناہ

معصیت را خندہ می آید ز استغفارِ ما

’’تسبیح ہاتھ میں، توبہ کا ذکر زبان پر اور دل میں گناہ سے لطف اندوزی کا داعیہ، ایسی توبہ پر تو معصیت بھی ہنستی ہے کہ یہ کیسی توبہ ہے‘‘۔

توبہ کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اﷲ کے لئے وقف کردے۔ اس کا جینا، مرنا، مخلوق خدا کے ساتھ ملنا، برتنا، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کمانا، خرچ کرنا اور کھانا پینا سب کا سب اﷲ کے لئے ہو جائے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اَ لَا ِﷲِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ.

(الزمر، 39:3)

’’(لوگوں سے کہہ دیں) سن لو طاعت و بندگی خالصۃً اﷲ ہی کے لئے ہے‘‘۔

احادیث مبارکہ سے بھی اخلاص کی وضاحت ہمیں میسر آتی ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَخْلِصِ دِيْنَکَ يَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِيْلُ.

(حاکم، المستدرک، کتاب الرقاق، 4: 341، رقم: 4844)

’’اپنے دین کو خالص کرو تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا‘‘

صرف اللہ تعالیٰ کیلئے عبادت و بندگی کا بجا لانا اخلاص ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:

’’اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اِسے میں اُس بندے کے دل میں رکھتا ہوں جس سے میں محبت کرتا ہوں‘‘۔

(دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب،3: 187، رقم: 4513)

لفظ عبادت اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ معاملات عبادات و عقائد سب اس میں شامل ہیں۔ مختلف معاملات زندگی جو بظاہر دنیاداری سے متعلق نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت اگر یہ سب معاملات اﷲ کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بجا لائے جائیں اور اس سلسلے میں کوئی ذاتی غرض پیشِ نظر نہ ہو مثلاً نہ مخلوق سے کسی تعریف و شہرت اور ناموری کی چاہت ہو، نہ نیک نامی اور نام نہاد بزرگی کی خواہش، تویہ سب امور دین کا حصہ قررا پائیں گے۔ چنانچہ اخلاص کی تعریف ہی یہ ہے کہ مخلوق کی نگاہوں سے اپنے فعل کو پاک رکھنا۔

اہلِ اخلاص کے نزدیک لوگوں کی اُن کے بارے میں تعریف کرنا یا مذمت کرنا برابر ہوتا ہے۔ اپنے اعمال نہ تو ان کی نظر میں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ان سے کسی اجر و ثواب کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ الغرض اخلاص صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے فعل کو انجام دینا ہے۔ چنانچہ ہر وہ فعل اور کام جو کسی معاوضہ کی نیت سے کیا جائے گا، وہ خالِص نہیں ہو گا اور اخلاص سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اخلاص بندے اور رب کے درمیان راز ہے۔ چنانچہ بندہ اپنے عمل پر اﷲ کے سوا کسی اور کو گواہ نہ بنائے۔ اگر کسی نے مخلوق کی خاطر کوئی عمل ترک کیا تو یہ ریا ہے اور اگر مخلوق کی خاطر کیا تو شرک۔

  • کسی سائل نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا:

أَيُّ شَيْئٍ أَشَدُّ عَلَی النَّفْسِ؟ فَقَالَ: الْإِخْلَاصُ، لِأَنَّهُ لَيْسَ لَهَا فِيْهِ نَصِيْبٌ.

(قشيری، الرساله: 209)

’’نفس پر کون سی چیز سب سے زیادہ گراں ہے؟ تو فرمایا: اخلاص (یعنی اپنے ہر فعل کو اللہ کے لئے خالص کرلینا) کیونکہ اس میں نفس کا کوئی حصہ نہیں‘‘۔

جو شخص صاحبِ اَخلاص ہو جاتا ہے وہ صرف خالق کا نیازمند ہوتا ہے۔ وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اس کی ذرہ برابر نیکی سے بھی آگاہ ہو کر اس کی تعریف کریں اور نہ ہی اس کا اس بات سے کوئی تعلق ہوتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں کیا کہیں گے بلکہ وہ اپنا ہر عمل صرف اﷲ کی رضا کے لئے سرانجام دیتا ہے۔

اخلاص کی نشانیاں

  • حضرت ذو النون مصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اخلاص کی تین نشانیاں ہیں:
  1. عوام کی مدح یا مذمت بندے کے لئے یکساں ہو۔
  2. بندہ اپنے اعمال کو دیکھنا بھول جائے۔
  3. آخرت میں اپنے اعمال کے ثواب کی چاہت کو بھی بھول جائے۔

(قشيری، الرسالة: 208)

کامِل اخلاص یہ ہے کہ جسم اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے خالص ہو جائے ، دل مولیٰ کے قرب کے لئے اور جان اللہ کی محبت کے لئے خالص ہو جائے۔ یعنی جسم اللہ کے سوا کسی غیر کے آگے نہ جھکے دل اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کسی اور کا قرب نہ چاہے اور جان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی محبت میں گرفتار نہ ہو۔

  1. توبہ پر استقامت

توبہ میں اسقامت محاسبۂ نفس کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ بندہ تائب ہونے کے بعد نفس کی حالت پر ہمیشہ نظر رکھے۔ صبح و شام اس کا حساب کرے۔ نفس کے فریب اور جھکاؤ سے کبھی غافل نہ ہو اور نہ ہی اسے معمولی سمجھے کیونکہ نفس کی آفتیں اَن گنت بھی ہیں اور باریک بھی۔ گناہوں کی یادوں اور حسرتوں کی راکھ کے نیچے لذت کی چنگاری غیر محسوس طریقے سے کسی نہ کسی حوالے سے آگ پکڑ کر من میں چھپی آتش گیر خواہشوں کو بھڑکا دیتی ہے اور توبہ کرنے والے کی پاکیزہ نفسی کو خاکستر کر دیتی ہے۔ در اصل نفس کو اپنے قابو میں رکھنا ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ حقیقی تائب وہی ہے جس نے مخالفتِ نفس کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور نفس کی لذتوں اور رنگینیوں کی وجہ سے اندھیری قبر کے مشکل لمحات سے بچنے کے لئے چوکس رہا اور اللہ تعالیٰ سے توفیقِ اصلاح طلب کرتا رہا۔

توبہ کی یہ شرط تقاضا کرتی ہے کہ بندہ ہر دم اﷲ تعالیٰ کے حضور استقامت کا طلب گار رہے اور اپنی طرف سے مقدور بھر اعمالِ صالحہ بجالانے میں کوشاں رہے۔ اﷲ تعالیٰ سے مضبوط تعلق تقاضا کرتا ہے کہ بندہ اوامر پر کاربند ہو اور نواہی سے اجتناب کرے۔ وہ صاحب استقامت ہو۔ استقامت کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ کبھی ایسا کام نہ کرے جو شرمندگی و ندامت کا باعث بنے۔ ایسے ہی صاحبِ استقامت کے بارے میں اﷲ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اﷲُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا.

’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی‘‘۔

(الاحقاف، 46: 13)

ابن عطاء اس آیت کی شرح میں فرماتے ہیں:

اسْتَقَامُوْا سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے دل کو صرف اﷲ تعالیٰ کے ساتھ لگایا اور اس پر قائم رہے۔

(قشيری، الرسالة: 206)

  • ابو علی شبوی فرماتے ہیں کہ انہوں نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا:

رُوِيَ عَنْکَ أَنَّکَ قُلْتَ: شَيَّبَتْنِيْ هُوْدُ، فَمَا الَّذِي شَيَّبَکَ مِنْهَا؟ أَقَصَصُ الْأَنْبِيَاءِ، أَمْ هَلَاکُ الْأُمَمِ؟ فَقَالَ: لَا، وَلٰکِنْ قَوْلُهُ تَعَالیٰ: {فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ}

(قشيری، الرسالة: 206)

’’(یا رسول اﷲ!) آپ سے روایت کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سورہ ھود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ یا رسول اللہ! کس بات نے آپ کو بوڑھا کردیا؟ آیا انبیاء e کے واقعات نے یا امتوں کی ہلاکت نے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان نے: ’پس آپ ثابت قدم رہئے! جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے‘‘۔

چنانچہ استقامت کوئی معمولی مقام نہیں۔ یہ صدقِ دل سے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کا نام ہے اور بہت کم اس کے اہل ہو سکے ہیں۔ توبہ کرلینا اتنا مشکل نہیں ہے البتہ استقامت کا نصیب ہونا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے۔ بندہ توبہ کر کے اس پر استقامت اختیار کر لے تو اس کی یہ توبہ اس کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتی ہے۔

(جاری ہے)

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2017

تبصرہ