ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس ڈیوس میں 26 جنوری 2011ء کو منعقد ہوا۔ اجلاس میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے بانی و سرپرست اعلیٰ اور چیئرمین پاکستان عوامی تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پوری دنیا سے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شرکت کرنے والے واحد اسلامی سکالر ہیں۔ جنہیں یورپی یونین کی طرف سے خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں پاکستان سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی شریک ہوئے۔ انڈونیشیا کے صدر Susilo Bambang Yudhoyono، یو ایس نیشنل کالج آف وار امریکہ کی پروفیسر آف سٹریٹیجی مسز (Audrey Kurth Cronin (FLTR، فرانس سے ,(Fondation pour la RechercheStrategique (FRS کے سینئر ریسرچ ماہر پروفیسر Bruno Tertrais، گلوبل ایجنڈا کونسل آن ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن Palaniappan Chidambaram، بھارت کے وزیر داخلہ پی چدم برم، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجیک سٹڈی برطانیہ کے ڈائریکٹر جنرل اور چیف ایگزیکٹیو John Chipman بھی اجلاس کے شرکاء میں شامل تھے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں مختلف مقررین نے اظہار خیال کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے "The Reality of Terrorism" کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ دہشت گردی نے عالمی سطح پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں اور دہشت گردی ایسی چیز نہیں جو اچانک ظہور پذیر ہو جائے۔ دہشت گردی کا ارتقائی عمل تنگ نظری اور انتہا پسندی سے ہو کر گزرتا ہے اور عسکریت پسند دہشت گردی کے عمل میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، یوں اسے پانچ مراحل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
تنگ نظری اور انتہا پسندی کے رویے فکری اور نظریاتی ہیں جو عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے عمل کو جنم دیتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے انسانیت کش عمل کو صرف اسلام جیسے امن و سلامتی والے مذہب کے ساتھ نتھی کرنا درست نہیں ہے۔ دہشت گردی جیسے مذموم عمل کو کسی بھی مذہب کے ساتھ منسوب کرنا درست عمل نہیں کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب انسانی جانوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا، اسلام تو ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔
خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں انسانی جانوں سے کھیلنے والے پوری انسانیت کے مجرم ہیں۔ خارجی فکر رکھنے والے ان مٹھی بھر عناصر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج اسلام کے تصور جہاد کو درست انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
جہاد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ جہاد امن کے قیام کیلئے کی جانیوالی انتہائی کوششوں کا نام ہے۔ جہاد کی روحانی، علمی، معاشرتی، سیاسی و سماجی، اور دفاعی پانچ اقسام ہیں۔ اسلام دوران جنگ بھی غیر مسلح افراد، عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور مذہبی و روحانی شخصیات کی جان کو نقصان پہنچانے کی ممانعت کرتا ہے۔ اسلئے مٹھی بھر خارجیوں کے عمل کو جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ اسلام میں کہیں بھی ایسے جہاد کا ذکر نہیں جو بے گناہوں کی گردنیں کاٹنے اور خود کش حملوں کی اجازت دیتا ہو۔ آج دنیا بھر سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اسکی وجوہات کو ختم کرنا ہو گا۔ ترقی پذیر ملکوں کی غربت ختم کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان ہم آہنگی پر توجہ دی جائے اور امن کے فروغ کیلئے مذاہب کے مشترکات پر اکٹھا ہوا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد اسلام اور دہشت گردی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا گیا، جس کے بعد دہشت گردوں کو اسلامی قرار دینے کی باقاعدہ مہم شروع کر دی گئی۔ اس کے بعد جہاد اور دہشت گردی کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا گیا۔ حالانکہ جہاد کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی تعلق بھی نہیں۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجیک سٹڈی برطانیہ کے ڈائریکٹر جنرل اور چیف ایگزیکٹیو John Chipman نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا دہشت گردی کے خلاف فتوی کا اجلاس کے شرکاء کے سامنے پیش کیا۔
تبصرہ