بے گناہوں کو خود کش حملوں کے ذریعے لقمہ اجل بنانے والے نہ مسلمان ہیں نہ ہی ان کے ظلم و بربریت پر مبنی یہ اعمال دین اسلام سے کسی قسم کا تعلق رکھتے ہیں ان خیالات کا اظہار مورخہ 28 جولائی 2010ء بروز منگل کو منہاج القرآن انٹرنیشنل لندن کے زیراہتمام محفل شب برات سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ دین اسلام کا محض دس فیصد عبادات سے متعلق ہے جبکہ باقی نوے فیصد معاملات کی ادائیگی اور اس کے تقاضوں پر مشتمل ہے اس کے باوجود بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے معلوم نہیں کس اسلام کے پیروکار ہیں۔ دین اسلام کی اصل اور حقیقی شکل کو رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے اور سارا زور ظاہری طور طریقے، عبادات و تسبیحات اور مذہبی معاملات تک محدود کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے دین کی اصل روح ہماری زندگی سے خارج ہو چکی ہے اور ہماری حیثیت ایسے ہوگئی ہے جیسے ہم انسانی شکل میں ایک لاش اٹھاکر پھر رہے ہیں۔
شیخ الاسلام کا خطاب ترک گناہ، رزق حلال اور اللہ رب العزت کی صحبت وسنگت پر تھا جس میں انہوں نے صغیرہ و کبیرہ گناہ، ان کے درجات کی کمی بیشی اور معافی کے اسباب کا ذکر کیا بعد ازاں رزق حلال کی وضاحت کرتے ہوئے امت مسلمہ کو اپنے خاندان و کنبہ کی رزق حلال سے پرورش پر زور دیا۔ انہوں نے کہا برصغیر میں بالخصوص سارا دن محض عبادت کے گرد اکٹھا کر دیا گیا ہے لیکن امت سے دین کا حق اس وقت تک روا نہیں ہو گا جب تک حقوق العباد پورے نہیں کئے جاتے، کیونکہ عبادات کا تعلق محض انسان اور اللہ تعالی کے درمیان ہے جس کی معافی کے لئے اللہ کی ذات کی خوشنودی کی ضرورت ہے لیکن انسان سے بدسلوکی اور اس کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے کو اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائے گا تا وقتیکہ وہ اس کے دوسرے انسان کو راضی نہ کرے اور اجتماعی سطح پر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی سوسائٹی سے ہیرا پھیری، جھوٹ و دھوکہ، حرام خوری کا قلع قمع کرنا ہوگا اور معاشرے کو دروندوں کا معاشرہ بننے سے بچانا ہوگا جہاں ہر کوئی دوسرے کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش میں لگا ہے، معاشی بدعنوانی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ والدین اور بیوی بچوں سے ہمسایوں کے حقوق کی پرواہ کئے بغیر تبلیغ دین اور جہاد پر بھجوایا جانے لگا ہے جبکہ حق داروں کی حق تلفی کرنے والوں کی نہ کوئی تبلیغ قبول ہے اور نہ ہی کوئی عبادت۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی کی وجہ اللہ تعالیٰ کی ہم سے ناراضگی ہے ہمیں اجتماعی طور پر اللہ سے معافی مانگنا ہو گی اور مسائل کے حل کے لئے غیروں کی بجائے مکین گنبد خضراء سے راہنمائی لینا ہو گی۔
رپورٹ: آفتاب بیگ
تبصرہ