انٹرنیشنل کانفرنس بعنوان اسلام بارے غلط فہمیوں کا ازالہ

فرغانہ انسٹی ٹیوٹ منہاج القرآن انٹرنیشنل مانچسٹر کے زیراہتمام مورخہ 31 اگست 2008ء کو مانچسٹر کے ایک بہت بڑے ہوٹل کے خوبصورت ہال میں ایک عظیم الشان اور تاریخ ساز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر خطیب جامع مسجد اموی دمشق فضیلۃ الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی، صدر سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل صاحبزادہ حسن محی الدین قادری، الشیخ سخروف اور الشیخ عبدالرحمن الحمامی، ممبر یورپین پارلیمنٹ سجاد کریم، سابق لارڈ میئر اور کونسلر محمد افضل خان، کونسلر عابد، کونسلر محمد نعیم اور دیگر کئی ممتاز سیاسی وسماجی شخصیات نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ لندن، برمنگھم، بریڈفورڈ، ھیلی فیکس، نیلسن اور سکاٹ لینڈ سے ہزاروں افراد اور بالخصوص نوجوان نسل نے خصوصی شرکت کی۔

اس عظیم الشاں اور تاریخ ساز کانفرنس کا آغاز شیخ الاسلام کے پوتے اور لخت جگر صاحبزادہ حماد مصطفیٰ مدنی کی خوبصورت آواز میں تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ بعد از تلاوت کلام مجید آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کئے گئے۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض فرغانہ انسٹیٹیوٹ کے پرنسپل اور نوجوان سکالر علامہ محمد رمضان قادری نے ادا کیئے۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید و نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پروگرام کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پندرہ صدیاں گزر گئیں معاشی، معاشرتی، سیاسی و سماجی حالات سے لے کر انفرادی و خاندانی ضروریات سب کچھ بدل گیا، اس دور کے تقاضے بڑی تیزی سے ہر شعبہ ہائے زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ ان حالات میں اس بات پر اصرار کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہی کو ہر چیز کی سلامتی کا ضامن اور ہر پہلو میں جامع ہدایت مانا جانا چاہیے، یہ ہے وہ سوال جو دبے لفظوں میں ہر ایک کی زبان پر اور نوجوان نسل کے ذہنوں میں ہمیشہ آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضور سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی کامیابی و کامرانی کا وہ واحد راستہ ہے جو آج بھی امت کو اس زوال سے نکال سکتا ہے۔

اسلام اور شریعت کے بارے میں پائے جانے والے شبہات اور اشکالات کے بارے میں شیخ الاسلام نے فرمایا کہ آج ہماری نوجوان نسل اور یہ جدت پسند معاشرہ اسلام کے حوالے سے بعض تحفظات کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ یورپی معاشرے میں اسلام کے بارے میں غیر حقیقی اور غلط تعبیر و تشریحات کا پیش کیا جانا ہے۔ اسلام کا یہ چہرہ دراصل ان افراد یا گروہ کا پیش کردہ ہے جسے طالبان کا نام دے دیا گیا ہے یہ افراد خود اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ناآشنا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور سیرت، مسلم امہ کے لئے کامل نمونہ ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات کو آخری ہدایت ماننا جب مسلمان ہونے کی شرط اول ہے تو ان حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت، اسلام کی آفاقی تعلیمات، آپ کے فرمودات اور جن حالات میں آپ کی بعثت ہوئی کا تحقیقی مطالعہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ عرب کا معاشرہ انتہا پسندی، ناانصافی، معاشرتی خرابیوں، خاندانی تفاخر، غیر انسانی و غیر اخلاقی برائیوں کا گڑھ تھا جہاں انسانیت کی تذلیل کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ یونانی، ایرانی اور ہندی تہذیب کے ساتھ ساتھ رومن تہذیب کا ذکر تو اس دور میں ملتا ہے مگر اس معاشرے میں افراد اخلاق، تہذیب و تمدن اور انسانی قدروں کے معنی تک سے ناآشنا تھے ان حالات میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رب کائنات کا پیغام "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO" لے کر معبوث ہوئے اور ایک نئی تہذیب، اخلاق اور رواداری کے وہ اُصول متعارف کروائے جن کا منبع قرآن و سنت اور اس کی صداقت کا معیار آپ کا ذاتی اخلاق حسنہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد عوام کے جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تم میں سے کوئی اس وقت تک جنت میں نہیں جاسکتا جب تک وہ ایمان نہ لے آئے اور اس وقت تک کوئی بھی صاحب ایمان نہیں ہوسکتا جب تک تم آپس میں ایک دوسرے کیلئے بھلائی اور سراسر خیر کے پیکر نہ بن جاؤ۔

جدید دنیا کے علمبرداروں کو انتہاء پسندی کے معانی آج پتہ چلے ہیں مگر 15 صدیاں قبل ایک نئی تہذیب اور نئے تمدن کی بنیاد رکھتے ہوئے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہا پسندی، غنڈہ گردی اور فرقہ پرستی کا قلع قمع کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنے ہمسایوں سے حسن سلوک اور احسان کی ایسی عظیم تعلیم دی کہ صحابہ رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں کہ ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحیثیت انسان اور بحیثیت پڑوسی حسن سلوک کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق ہی مٹا دی۔

شیخ الاسلام نے غرباء و مساکین اور معاشرے کے محروم طبقات کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس رحمت والے رب کی عبادت کرو، غرباء و مساکین کو کھانا کھلاؤ جس کو تم جانتے ہو اس کو بھی اور جس کو تم نہیں جانتے اس کو بھی۔

انہوں نے کہا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر غرباء اور مساکین کے لئے باقاعدہ چیرٹی قائم کرنے، نرم گفتگو کرنے جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو کا خاص حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کے احکامات تو بہت بعد میں آئے مگر انفرادی اور خاندانی مواخات اور اخلاق حسنہ کی تعلیمات پر عمل سب سے پہلے شروع ہوا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ دنیا کا سب سے پہلا دستور / آئین پندرہ صدیاں قبل تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود عطا فرمایا۔ آفاقی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کا نظام اسلام نے متعارف کروایا۔ جب یورپی معاشرے میں بادشاہ کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون اور حکم ہوتا جس کے آگے منہ کھولنے کی سزا موت ہوتی جبکہ اسلام نے صدیوں پہلے شورائی نظام متعارف کرایا اور خواتین کو ان کے انسانی اور قانونی حقوق دیئے۔ مہذب معاشرے کے دعویداروں نے دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1920ء میں عورت کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ ادھر 15 سو سال قبل خلافت راشدہ کے دور میں خواتین کو سلطنت اسلامیہ میں جج اور دوسرے ممالک میں سفارتکار مقرر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی بہن حلب کی گورنر رہیں۔ انسانی حقوق کے دعویدار جو چاہے کہتے پھریں ان انسانی قدروں اور حقوق کا وہ تصور بھی پیش نہیں کر سکتے جو 15 صدیاں قبل تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اسلامی سلطنت میں بسنے والے مسلم اور غیر مسلم کی بلاتفریق جان و مال کی حفاظت اور ان کے مذہبی حقوق اور رسم و رواج کی آزادی کی ضمانت اسلامی سلطنت کی قانونی اور دستوری ذمہ داری ہوگی۔ اسلام دین امن و محبت اور اسکا پیغام بھی پیغام محبت ہے۔ جہاد اور خلافت کے نام پر فتوے جاری کرنے کی کسی شخص یا گروہ کو انفرادی سطح پر اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل لگانا سراسر نا انصافی ہوگی۔

شیخ الاسلام نے تمام افراد اور نوجوانوں کو بالخصوص یورپ کے اندر اپنا مقام پیدا کرنے اس ملک اور معاشرے کے لئے مل جل کر کام کرنے اور تمام کمیونٹیز کے ساتھ گھل مل کر رہنے کی ضرورت پر ضرور دیا اور فرمایا کہ اسلام نے کبھی بھی دوسرے معاشروں سے الگ تھلگ (isolation) رہنے کی تعلیم نہیں دی۔

مصر سے تشریف لائے ہوئے الشیخ احمد درویش نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تجدیدی کام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں اس کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ اور یورپ میں آباد نوجوانوں اور والدین کو اس قافلے میں عملی شرکت کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے علماء کرام سے بالخصوص، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے علمی و تحقیقی کام کو پوری دنیا میں پھیلانے کیلئے کمر بستہ ہونے کی تلقین کی۔ آپ نے الفرغانہ انسٹی انسٹیٹیوٹ کے پرنسپل علامہ محمد رمضان قادری کے اعلیٰ برتاؤ، حسن انتظام اور کام کا بھی ذکر کیا۔

سرزمین مدینہ منورہ میں 22 سال تک قرآن وسنت کی تعلیم دینے والے عظیم بزرگ محدث اور فقیہ فضیلۃ الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ قرآن وسنت اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مفاھیم شیخ الاسلام کے دل پر اللہ کے انوار تجلیات بن کر اُترتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کا اثر علمی اور تحقیقی انداز خطاب ہر شخص کو سوچنے پر مجبور اور دعوت عمل دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احادیث سیکھنے کا شوق اور شیخ الاسلام سے محبت انہیں ہر سال یہاں لے آتی ہے، یہ محبت دنیا میں بھی کام آئے گی اور آخرت میں بھی۔

انہوں نے کہا کہ شیخ الاسلام کے مقابلے میں وہ اپنے علم کو ایک ذرہ سمجھتے ہیں۔ شیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی نے فرمایا کہ آج کے اس پُرفتن دور میں وہ ان کی صورت میں امت مسلمہ کیلئے اُمید کی ایک کرن دیکھتے ہیں۔

میزبان مقررین میں کونسلر افضل خان نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اہل مانچسٹر کی خوش قسمتی ہے کہ آج شیخ الاسلام یہاں تشریف لائے ہیں جس کی ہم تہہ دل سے قدر کرتے ہیں۔

ایم ای پی سجاد کریم نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہمیں اس طرح کے پروگرامز ضرور منعقد کرنے چاہیں جس سے اسلام کا حقیقی پیغام جاننے کا موقع ملے۔

پروگرام کا اختتام دعائے خیر سے ہوا۔

رپورٹ : شاہد جنجوعہ (مانچسٹر ۔ برطانیہ)
مرتب : میاں اشتیاق (سیکرٹری امورخارجہ)

تبصرہ